گزشتہ تین سالوں سے، وبائی بحران کا امریکی "ڈراؤنا خواب" کبھی نہیں رکا .انسداد
وبا کے سلسلے میں امریکہ بری طرح ناکام رہا اور اس کی قیمت افسوسناک تھی۔ امریکی
حکومت کی غیر فعالیت اور اندھا دھند اقدامات کی وجہ سے امریکا میں کورونا وائرس کی
تقریبا تمام اقسام کی لہریں سامنے آ چکی ہیں جس کے نتیجے میں 10 کروڑ سے زائد لوگ
متاثر ہوئے، 10 لاکھ 80 ہزار سے زائد اموات ہوئیں اور 2 لاکھ 50 ہزار بچے یتیم
ہوگئے۔ یہ افسوسناک اعداد و شمار دنیا میں پہلے نمبر پر ہیں۔ امریکہ میں اوسط متوقع
عمر 2021 میں کم ہو کر 76.4 سال رہ گئی جو 1996 کے بعد سب سے کم ہے۔
یہ واقعی
ناقابل یقین ہے. امریکہ کا شمار طبی سہولیات کے معیار کے حوالے سے دنیا کے سب سے
ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وبائی مرض کے تین سال
بعد امریکہ کا طبی نظام زیادہ موثر اور پختہ ہوتا، لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس
ہے۔ امریکی سیاست دان اپنے ملک میں پھیلی زبردست وبا پر آنکھیں بند کر لیتے ہیں
لیکن چین پر انگلیاں اٹھاتے ہیں، نہیں معلوم کہ ان میں یہ ہمت اور اعتماد کہاں سے
آتا ہے؟
گزشتہ تین سالوں میں، چین نے وبا کے شدید عرصے کے دوران سخت روک تھام
اور کنٹرول کی پالیسیوں کو نافذ کیا ہے، عالمی وبا کی پانچ لہروں کے اثرات کا
مقابلہ کیا ہے، شدید بیماری اور اموات کو بہت کم کیا ہے، ویکسین اور ادویات کی
تیاری اور اس میں بہتری ،اور طبی وسائل کی تیاری کے لئے قیمتی ونڈو پیریڈ کا کامیاب
استعمال کیا ہے. 8 جنوری سے چین کورونا وائرس کے نئے انفیکشن کو "کلاس بی مینجمنٹ "
کے صف میں شامل کرکے ایڈجسٹ کر رہا ہے اور اب ملک میں داخل ہونے والے افراد اور
سامان کے لئے متعدی بیماری کے قرنطینہ کے اقدامات نہیں اپنائے جائیں گے۔ یہ
وبائی صورتحال میں تبدیلیوں کے تناظر میں روک تھام کی پالیسیوں کو بہتر بنانے کے
لئے چین کی تازہ ترین کوشش ہے ، جو چینی عوام کی حفاظت کی ذمہ دار ہے اور عالمی
معیشت کو فروغ دینے کے لئے سازگار ہے۔
اس کے برعکس امریکی سیاست دان کیا کر رہے
ہیں جو اپنے ہی لوگوں کے مصائب سے لاتعلق ہیں؟ امریکی حکومت نے کبھی بھی عملی مسائل
کو حل کرنے کے لئے اپنی توانائی وقف نہیں کی ، لیکن اس نے اس وبا کو سیاسی
رنگ دینے اور ہتھیار بنانے کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ وہ دوسروں کو بدنام کرتے ،
رکاوٹیں کھڑی کرتے اور دیواریں تعمیر کرتے چلے آ رہے ہیں، جو امریکی عوام اور دنیا
کے لوگوں کے لئے ایک پھٹکار ہے.