چین میں وبا کی روک تھام اور کنٹرول کا عمل ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکا
ہے اورمتعدد ممالک نے اس کا خیرمقدم کیا ہے۔ گزشتہ تین سالوں میں امریکہ، وبا کے
خلاف جنگ میں دنیا کا سب سے بڑا ناکام ملک رہا ہے لیکن اس نے خود کو وبا کے خلاف
جنگ میں عالمی رہنما اور اس جنگ کا سب سے بڑا حامی دکھایا۔ ویکسین ہی کی مثال
لیجئے ، امریکہ نے ہمیشہ اپنے آپ کو " دنیا کا سب سے بڑا ویکسین ڈونر" کہا ہےتاہم
حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے دنیا کو 2023 تک کورونا ویکسین کی کم از کم 1.1 بلین
خوراکیں عطیہ کرنے کا وعدہ کیا تھا ،لیکن 5 جنوری تک اس کی جانب سے صرف 665.1
ملین خوراکیں ہی عطیہ کی گئی جو وعدہ کی گئی تعداد کے نصف سے تھوڑی سی ہی زیادہ ہیں
۔ دوسری طرف امریکہ کے بیماریوں کے کنٹرول اور روک تھام کے مرکز کے مطابق مارچ سے
ستمبر 2021 تک امریکہ میں ویکسین کی کم از کم 15.1 ملین خوراکیں ضائع ہوئیں
۔
گزشتہ تین سال میں نوول کورونا وائرس کی تقریبا تمام اقسام اور اس کے متغیر
ویریئنٹ امریکہ میں پھیلےہیں۔ تاہم، امریکی حکومت کا وبا کے خلاف ردِ عمل بے حد سست
تھا اور اس سے وائرس کو دنیا بھر میں پھیلنے کا موقع ملا، جس سے دنیا بھر میں لوگوں
کی زندگیوں اور صحت کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ پیدا ہوا۔ بے شک اس وبا کے عالمی
پھیلاؤ کی ذمہ امریکہ پر عائد ہونی چاہیئے ۔
اس وقت وائرس کی نئی قسم ایکس بی
بی.1.5 امریکہ میں انفیکشن کے 40 فیصد سے زیادہ کیسز کا سبب بن چکی ہے۔امریکہ کو
وبا سے متعلقہ معلومات اور اعداد و شمار ڈبلیو ایچ او اور بین الاقوامی برادری کے
ساتھ بروقت اور شفاف انداز میں بانٹنے چاہئیں اور وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے
عملی اور موثر اقدامات اختیار کرنے چاہئیں ۔