نو دسمبر کو پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں کی امداد کے لیے جینوا میں کانفرنس منعقد ہوئی جس میں پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان نے حالیہ سیلاب زدہ علاقوں کی بحالی اور تعمیر نو کے لیے ایک فریم ورک تیار کیا ہے جس کے لیے کم از کم 16.3 بلین ڈالرز کی ضرورت ہے۔پاکستان عالمی کاربن اخراج میں بہت کم حصے والا ملک ہے ،تاہم آب و ہوا کی سنگین تبدیلی سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں سے ایک ہے اورسیلاب زدہ علاقوں کی تعمیر نو میں عالمی برادری کی مسلسل حمایت اور خاص طور پر ترقی یافتہ ممالک کے ٹھوس اقدامات درکار ہیں۔
جون دو ہزار بائیس میں پاکستان میں آنے والے تباہ کن سیلاب سے ۳۳ ملین افراد متاثر ہوئے اور ایک ہزار سات سو افراد ہلاک ہوئے،ہزاروں درسگاہوں اور ہسپتالوں کو نقصان پہنچا۔ اور اب تک اسی لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں ۔
اس سیلاب کی ایک اہم وجہ آب و ہوا کی تبدیلی ہے۔ انٹارکٹک اور آرکٹک کے علاوہ پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ گلیشیئرز کا حامل ملک ہے۔ حالیہ برسوں میں، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی وجہ سے دنیا بھر میں بہت سے گلیشیئر زخطرناک حد تک پگھل رہے ہیں۔ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق اس صدی کے آخر تک دنیا کے 50 سے 80 فیصد تک گلیشیئرز کے پگھلنے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہاہے اور گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتار اس خدشے سے زیادہ ہے ۔ گلیشیئرز کے پگھلنے سے نہ صرف سمندر کی سطح بڑھ جائے گی بلکہ دنیا کی بڑی آبادی کے لیے پانی کی ناکافی فراہمی اور سیلاب کا خطرہ بھی بڑھ جائے گا۔
اس ضمن میں پاکستان اور چین کا تعاون تسلسل سے جاری رہا ہے۔ایک طرف سی پیک کے تحت پاکستان میں صاف توانائی کے منصوبوں کو فروغ ملا ہے جس سے کاربن کے کم اخراج میں بھی مدد ملی ہے۔ آپٹیکل کیبلز، توانائی، اور نقل و حمل کے بڑے منصوبوں میں پیش رفت کی بدولت پاکستان کی پائیدار ترقی کے لیے زیادہ مواقع پیدا ہوئے ہیں اور دوسری طرف سیلاب آنے کے بعد چین نے نہ صرف ہنگامی امدادی سامان اور خصوصی مالی امداد فراہم کی بلکہ شعبہ طب اور آفات سے نمٹنے کے لیے ماہرین بھی بھیجے۔اس کےساتھ ساتھ قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے چین نے پاکستان کے لیے ایک ہزار پیشہ ورانہ کارکنان اور اہلکاروں کی تربیت میں پہل کی اور پاکستان پوسٹ ڈیزاسٹر ری کنسٹرکشن انٹرنیشنل پارٹنرز سپورٹ گروپ میں شرکت پر آمادگی کا اظہار بھی کیا۔
ایک اہم اور قابل توجہ بات یہ ہے کہ آب و ہوا کی تبدیلی ایک عالمی مسئلہ ہے اور ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے اخراج کی جانے والے گرین ہاؤس گیس کی مقدار ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے،تاہم پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر ممالک اس سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔گزشتہ سال نومبر میں پاکستان سیکیورٹیز ایجنس کے اے ایس بی کی جاری کردہ پاکستان میں آب و ہوا کی تبدیلی کی رپورٹ میں یہ خیال ظاہر کیا گیا کہ امریکہ سمیت ترقی یافتہ ممالک کو اس ضمن میں زیادہ ذمہ داری اٹھانی چاہیئے۔رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ امریکہ نے سال ۲۰۳۰ تک کاربن اخراج کو سال ۲۰۰۵ کے مقابلے میں ۵۰ تا ۵۲ فیصد کم کرنے کا ہدف مقررہ کیا ،تاہم اس وقت تک بھی امریکہ کا فی کس کاربن اخراج موجودہ عالمی اوسط معیار کے مقابلے میں دو اعشاریہ دو گنا زیادہ ہوگا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ امریکہ اور یورپی یونین کوآب و ہوا کی آڑ میں ترقی پذیر ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے اور کاربن محصولات جیسے تجارتی باڑ لگانے کی بجائے ترقی پذیر ممالک کے لیے ہر سال ایک کھرب امریکی ڈالرز کی امداد کے اپنے وعدے کو پورا کرنا چاہیئے۔
ترقی پذیر ممالک کے اتحاد کی بدولت آب و ہوا سے نمٹنے کے عالمی عمل میں کچھ خوش آئند نتائج بھی برآمد ہوئے ہیں۔گزشتہ سال بیس نومبر کو شرم الشیخ میں اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس یعنی کوپ ۲۷ میں لاس اینڈ ڈیمیج فنڈ کے قیام پر اتفاق ہوا جو کہ ترقی پذیر ممالک کے مطالبے کے مطابق ہے۔تاہم ترقی یافتہ ممالک نے ترقی پذیر ممالک کو ہر سال ایک کھرب امریکی ڈالرز کی امداد دینے کے اپنے وعدے کو ابھی تک پورا نہیں کیا۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے جینیوا کانفرنس کے بعد کہا کہ نو تاریخ کی یہ کانفرنس پاکستان میں بحالی اور تعمیر نو کے طویل عمل کی جانب پہلا قدم ہے۔انہوں نے پرزور الفاظ میں کہا ہے کہ گلوبل وارمنگ کو روکنے کے لیے صرف زبانی بیانات کی بجائے مختلف ممالک ،خاص کر ترقی پذیر ممالک کے ٹھوس اقدامات درکار ہیں۔