اعلیٰ چپس ٹیکنالوجی کے حوالے سے چین کی تیز رفتار ترقی، کوانٹم چپس کی ڈیوائسز میں اہم پیش رفت

2023/01/11 11:12:36
شیئر:

حالیہ دنوں چین کی جانب سے کوانٹم چپس کی تیاری کے لئے ایم ایل ایل اے ایس 100 .لیزر اینیلنگ ڈیوائس کی تحقیق میں کامیابی کا اعلان کیا گیا ۔یہ کوانٹم چپس کی تیاری کے لئے درکار ڈیوائسز کے شعبے میں چین کی ایک اور اہم پیش رفت ہے۔ یادر ہے کہ گزشتہ سال کی چوتھی سہ ماہی میں چینی کمپنی ہوا وے اور بائی دو نے کوانٹم چپس کے پیٹنٹ کا اعلان کیا تھا جبکہ چین کی ایک اور کمپنی نے بھی ملک میں کوانٹم چپ کی ڈیزائننگ کے لئے کیو ای ڈی اے انڈسٹریل سافٹ ویئر جاری کیا تھا۔چینی ہائی ٹیک کمپنیوں کی جانب سے کواٹنم  چپ کے حوالےسے اہم پیش رفت ،  چپس کی صنعت کے عالمی منظر نامے کو تبدیل کر سکتی ہیں ،  یہی وجہ ہے کہ  اس  پیش رفت کا اعلان ملکی اور غیرملکی حلقوں میں توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔

اس وقت پوری دنیا سلیکون پر مبنی چپس استعمال کرتی ہے جس کی طبیعیاتی حد سائنسدانوں کے مطابق ایک نینو میٹر تک ہے۔دوسری جانب کوانٹم چپس کو مستقبل کی چپس سمجھا جاتا ہے جس کی کارکردگی سلیکون چپس سے ایک ہزار گنا زائد ہے جبکہ توانائی کا استعمال بھی سلیکون چپس کا صرف ہزارواں حصہ ہے۔تا حال ، چین نے درمیانے درجے کی سلیکون چپس کی ٹیکنالوجی اور تیاری میں کامیابی حاصل کی ہے، لیکن اعلیٰ درجے کی سلیکون چپس کی ٹیکنالوجی، سافٹ ویئر اور مینو فیکچرنگ کی ڈیوائسز پر بدستور مغرب قابض ہے اور چین پر سخت پابندیاں بھی عائد کر رہا ہے۔حالیہ سالوں میں ہوا وے کمپنی  کا موبائل فون کاروبار بھی اسی وجہ سے شدید متاثر ہوا۔کوانٹم چپس کے شعبے میں چین کی حاصل شدہ پیش رفت نہ صرف سائنسی ترقی کا فطری نتیجہ ہے بلکہ مغربی ٹیکنالوجی کی ناکہ بندی کے تناظر میں چین کا اپنا راستہ تلاش کرنے کا جواب بھی  ہے۔

امریکہ کی جانب سے چین کے لیے سائنس و ٹیکنالوجی میں رکاوٹیں کھڑی کرنا ، کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بل گیٹس نے اس حوالے سے بار ہا خبردار کرتے ہوئے کہا کہ چینی ہائی ٹیک کمپنیوں پر امریکہ کے تعزیری اقدامات بےوقوفی کے مترادف ہیں، جس کا فائدہ تو شائد محدود ہو ، ہاں مگر منفی اثرات زیادہ مرتب ہوں گے۔ایسے اقدامات کے ردعمل میں چین نہ صرف مزید عزم سے اپنی سائنسی ترقی کو فروغ دے گا بلکہ مضبوط سے مضبوط تر بھی ہوتا جائےگا ،اور حقیقت بھی یہی ہے۔سرنگ بورنگ کے لئے شیلڈ مشین اس کی ایک اچھی مثال ہے۔ایک زمانے میں چین کے لیے مغربی ساختہ شیلڈ مشین دستیاب نہیں تھی اور اسے خود تحقیق کرنا پڑا۔ بعد ازاں ، جب چینی ساختہ جدید تر ین شیلڈ مشین وجود میں آئی تو عالمی مارکیٹ میں اس  مشین کی قیمت میں زمین اور آسمان کا فرق اور کمی دیکھنے میں آئی۔چپس صنعت کا مستقبل بھی اسی طرف جا رہا ہے۔ امریکہ کی جانب سے چین پر ٹیکنالوجی کی بندشیں مزید بڑھانے اور چینی چپس کی ترقی کے ساتھ ساتھ اب چپس کی عالمی صنعت بڑی تبدیلیوں سے دو چار ہے۔امریکی میڈیا بلومبرگ کے اعداد و شمار کے مطابق دو ہزار بائیس میں امریکہ کے چپس اینڈ سائنس ایکٹ کے نفاذ کے بعد چپس کی عالمی صنعت کو شدید نقصانات پہنچے ہیں۔ صرف امریکہ ہی میں لسٹڈ کمپنیوں کی مارکیٹ ویلیو میں دس اعشاریہ سات ٹریلین یوان کی کمی دیکھی گئی۔کہا جا سکتا ہے کہ غرور کا سر نیچا ۔

حالیہ سالوں میں   چینی صنعتی اداروں میں سائنسی تحقیق کے لئے سرمایہ کاری کو نمایاں فروغ ملا ہے۔یورپی کمیشن کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوا ہے کہ دو ہزار بائیس میں صرف ایک چینی کمپنی ہوا وے ہی نے سائنسی تحقیق کے لئے ایک اعشاریہ تین آٹھ کھرب یوان خرچ کیے جو پوری دنیا میں چوتھے نمبر پر تھا۔ایک کہاوت ہے کہ جتنا گُڑ ڈالو گے ،اُتنا میٹھا ہو گا ، سو ان کوششوں کے ثمرات بھی ضرور برآمد ہوں گے ۔ ایک جرمن نیٹیزن کا کہنا ہے کہ کوانٹم چپس ٹیکنالوجی کی بدولت چین نہ صرف دباؤ  کی صورتحال سے خود باہر نکل آئے گا بلکہ مستقبل میں چپس مارکیٹ کا نیا رہنما بھی بن سکتا ہے۔اس بیان کی تائید یہاں سے بھی ہوتی ہے کہ چپس سازی کے شعبے میں اجارہ داری کی حامل نیدرلینڈ کی کمپنی اے ایس ایم ایل نے حال ہی میں امریکی دباؤ کے باوجود اعلان کیا ہے کہ وہ چین کو لیتھوگرافی مشین دوبارہ برآمد کرےگی۔ظاہر ہے کہ جب چین میں کوانٹم چپس کی وسیع  پیمانے پر تیاری کامیاب ہوگی تو تب نیدرلینڈ کی لیتھوگرافی مشین کی مارکیٹ ویلیو بالکل ختم ہو کر رہ جائے گی۔

ہوا وے کی ترقی درحقیقت چین کی سائنسی ترقی کا ایک نمونہ ہے۔گزشتہ عشرے میں چین نے ہائی ٹیک شعبے میں بہت زیادہ کامیابیاں حاصل کی ہیں، بےدو سیٹلائٹ کا نیٹ ورک، خلائی اسیٹیشن کا قیام ، ہائپر سونک میزائل،برقی مقناطیسی اخراج وغیرہ وغیرہ۔چین کی یہ سائنسی تکنیکی کامیابیاں واضح ثبوت ہیں کہ امریکہ اور مغرب کی جانب سے چین پر سائنس و ٹیکنالوجی کی ناکہ بندی چین کی ترقی کو ہرگز نہیں روک سکتی ہے۔دراصل ، مغرب کی ناکہ بندی اپنے دروازوں کو بند کرنے کی نئی شکل ہے اور جو حقیقی معنوں میں بند ہوگا، وہ چین نہیں ہوگا ،بلکہ خود مغرب   ہی ہوگا۔