حال ہی میں چین مخالف بین الاقوامی تنظیم " سنکیانگ وکٹم ڈیٹا بیس "نے ٹویٹ کیا کہ اس نےدو ہزار سے زیادہ ارمچی پولیس افسران کو اپنے" احتساب ڈیٹا بیس" میں شامل کیا ہے کیونکہ ان کا ایک ہزار سے زیادہ متاثرین کے ساتھ تعلق ہے ۔ تاہم اس بے بنیاد اور نام نہاد "سنکیانگ پولیس لسٹ" میں جعل سازی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس میں ہانگ کانگ کے اداکار اینڈی لاؤ اور چو یون فیٹ کی تصاویر بھی شامل ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ بے شمار انٹرنیٹ صارفین نے اس لسٹ کا مذاق اڑاتے ہوئے تبصرے کیے کہ "ہانگ کانگ کے مشہور اداکار اینڈی لاؤ اور چو یون فیٹ جادوئی طور پر اپنی اداکاری کا پیشہ چھوڑ کر سنکیانگ کی پولیس میں بھرتی ہو چکے ہیں! یہ واقعی مضحکہ خیز ہے کہ چین مخالف پراپیگنڈا کرنے والے اپنی جعل سازی کو پھیلانے کے لیے کس قدر بے چین ہیں۔ "
مزید یہ کہ نیوزی لینڈ کے صحافی اینڈی بورہیم نے بھی 10 تاریخ کو ٹویٹر پر ایک پوسٹ میں کہا کہ وہ بھی حیرت انگیز طور ایک "مجرم" بن چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ "نہ صرف چین کے ہانگ کانگ کے سپر اسٹارز بلکہ مجھے بھی سنکیانگ وکٹم ڈیٹا بیس میں ایک ایسے شخص کے طور پر درج کیا گیا ہے جو سنکیانگ میں 15396 "متاثرین" کی حراست، نگرانی، استحصال / امتیازی سلوک اور دبانے میں ملوث ہے۔
نام نہاد "سنکیانگ وکٹم ڈیٹا بیس" ایک امریکی نے چند چین مخالف "ماہرین" اور "مشرقی ترکستان" عناصر کے ساتھ مل کر قائم کی تھی، اور اسے امریکہ، آسٹریلیا میں متعلقہ فریقوں سے مالی اعانت اور حمایت ملی تھی۔ یہ تنظیم ہمیشہ سنکیانگ کے بارے میں افواہیں پھیلاتے ہوئے چین کو بدنام کرنے اور اس پر حملہ آور ہونے کی کوششوں میں مصروف رہتی ہے ۔
لیکن حقائق کچھ اور کہتے ہیں جن سے انکار ناممکن ہے ۔ اس وقت ایسے بے شمار غیر ملکی دوست جنہوں نے سنکیانگ کا خود دورہ کیا ہے ، وہاں پائیدار ترقی کے فروغ اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے چینی حکومت کی کوششوں کو تسلیم کرتے ہوئے بھرپور سراہتے ہیں. 8 سے 11 جنوری تک ورلڈ کونسل آف مسلم کمیونٹیز کے چیئرمین اور پرتشدد انتہا پسندی کے خلاف انٹرنیشنل ڈیموسٹریشن سینٹر کے چیئرمین علی رشید نعیمی کی قیادت میں متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور مصر سمیت 14 ممالک سے عالمی شہرت یافتہ اسلامی مذہبی شخصیات اور اسکالرز کے ایک وفد نے سنکیانگ کا دورہ کیا۔ وفد کے کئی ارکان نے دورے کے دوران کہا کہ حقیقی سنکیانگ ویسا نہیں ہے ، جو کچھ غیر ملکی میڈیا میں کہا جاتا ہے۔ علی نے کہا"ہم نے (کاشغر کے) قدیم شہر اور بازار کا دورہ کیا اور راستے میں مقامی لوگوں سے بات چیت کی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ معمولات زندگی اور ترقی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، اور ہم ان کی خوشی محسوس کرسکتے ہیں. سب کچھ بہتر ہو رہا ہے. "
امریکہ اور کچھ دیگر مغربی ممالک سنکیانگ سے متعلق مسلسل جھوٹ بولتے رہے ہیں جس کا مقصد بہت واضح ہے کہ سنکیانگ کو "چین پر حملہ آور ہونے کے لیے استعمال کرنا" اور چین کی ترقی کو روکنا ہے۔ ان کے حربے انتہائی اناڑی ہیں ۔ان کے نزدیک یا تو "آلہ کار" اداروں کی حمایت اور معاونت سے سنکیانگ سے متعلق نام نہاد "تحقیقی رپورٹس" تیار کی جائیں ؛ یا پھر سنکیانگ میں نام نہاد "انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں" کے جھوٹے گواہوں اور ثبوتوں کو خرید تے ہوئے سنکیانگ کے بارے میں من گھڑت جھوٹی خبریں پھیلائی جائیں ۔ پھر امریکہ اسی آڑ میں چین پر پابندیاں اور دباؤ ڈال سکے، چین پر حملہ آور ہو سکے اور اسے بدنام کر سکے۔تاہم زیادہ سے زیادہ لوگ اس قسم کے حربوں سے واقف ہیں اور بصیرت رکھنے والے بے شمار لوگ امور سنکیانگ سے متعلق معقول اور حقیقی آوازیں بلند کر رہے ہیں۔ فرانسیسی مصنف میکسیم ویواس نے دو مرتبہ سنکیانگ کا دورہ کیا اور اپنی کتاب "دی اینڈ آف ویغور فیک نیوز" میں اپنی آنکھوں دیکھے حال اور اپنے ذاتی تجربات کی روشنی میں مغربی جھوٹ کو مسترد کرتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ "میں نے 2016 اور 2018 میں دورہ سنکیانگ کے دوران جو کچھ دیکھا وہ مغربی میڈیا کی رپورٹوں سے بالکل مختلف تھا۔ یہ سب دراصل امریکہ کی جانب سے من گھڑت تھا. "
حقیقت بالآخر دنیا کے سامنے آجائے گی، براہ مہربانی اپنے ملک میں نسلی امتیاز اور تاریخ میں مقامی ریڈ انڈینز باشندوں کے قتل عام کو ہمیشہ یاد رکھتے ہوئے دوسرے ممالک پر "نسل کشی" کا لیبل نہ لگائیں۔ جیسے جیسے زیادہ سے زیادہ غیر ملکی دوست سنکیانگ آئیں گے اور حقیقی سنکیانگ کو دیکھیں گے، مجھے یقین ہے کہ ان پر سنکیانگ کے بارے میں نام نہاد تحقیقی اداروں کے غلط اعداد و شمار اور جھوٹ کی قلعی کھلی جائے گی، اور اس کے ساتھ ہی چین کو دبانے کے لیے امریکی حکمت عملی اور اس مقصد کے حصول کے لئے اختیار کردہ اقدامات کی بھی واضح تفہیم ہوگی۔ جھوٹ ہمیشہ جھوٹ ہی رہتا ہے اور کبھی سچ پر غالب نہیں آ سکتا ہے۔ سنکیانگ کا مستحکم سماج ، بہتر ین ترقی اور لوگوں کی پرامن اور اطمینان بخش زندگی ، امریکہ اور مغرب میں سنکیانگ سے متعلق غلط معلومات اور جھوٹوں کے خلاف سب سے طاقتور جواب ہے ۔