چین کے قومی ادارہ شماریات نے 17 تاریخ کو ،2022 کے قومی اقتصادی اعداد و شمار جاری
کیے۔ ابتدائی حساب کے مطابق، چین کی جی ڈی پی گزشتہ سال 121 ٹریلین یوآن سے تجاوز
کر گئی، جو پچھلے سال کے مقابلے میں 3.0 فیصد زیادہ ہے. متعدد غیر متوقع عوامل جیسے
جغرافیائی سیاسی خلفشار، عالمی معیشت کے لئے بڑھتے ہوئے منفی خطرات، اور گھریلو
وبائی امراض کے بار بار پھیلنے کے اثرات کے تحت، چین کی معیشت کے لئے دباؤ کا
مقابلہ کرنا اور مجموعی طور پر ایک نئی بلندی تک پہنچنا آسان نہیں تھا.
2022 میں
ایک طرف چین کی معیشت معقول شرح نمو رکھے ہوئے تھی اور روزگار اور اشیا کی قیمتیں
مجموعی طور پر مستحکم رہیں، تو دوسری طرف، چین کی اعلی معیار کی ترقی کو فروغ دینے
کی رفتار برقرار رہی ۔
واشنگٹن پوسٹ کا کہنا ہے کہ ' ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ
چین کی معیشت زندہ ہو رہی ہے'۔ امریکہ کے جریدے بیرن کے تجزیہ نگار لیشما کپاڈیا
کا خیال ہے کہ چینی حکومت کی متعلقہ پالیسیوں کے تحت چین واحد بڑی معیشت ہو سکتی
ہے، جس سے 2023 میں کارپوریٹ منافع اور جی ڈی پی میں خاطر خواہ اضافہ متوقع ہے۔ آئی
ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کریسٹلینا جارجیوا نے بھی حال ہی میں کہا تھا کہ چین
کی معیشت 2023 میں عالمی اقتصادی ترقی کو فروغ دینے میں سب سے اہم عوامل میں سے ایک
ہو سکتی ہے۔ ایک حالیہ انٹرویو میں بین الاقوامی شہرت یافتہ کاروباری شخصیت اور
سرمایہ کار لارس ٹویڈ نے کہا کہ چین اب بھی دنیا کی سب سے بڑی ترقی کی کہانی
ہے۔