نئے سال کے آغاز پر، لوگ ہمیشہ نئے سال کے لئے امید اور نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں ،تاہم 2023کے پہلے ماہ میں امریکہ میں انسانی حقوق کی صورت حال انتہائی شرمناک رہی ہے جس کے اعدادو شمار اور حقائق نے پوری عالمی برادری کو حیرت اور تشویش میں مبتلا کر دیا ہے ۔
29 سالہ افریقی نژاد امریکی شہری ٹائر نکولس کو رواں ماہ کے اوائل میں پولیس اہل کار نے سڑک کے کنارے گاڑی پارک کرنے کے لئے کہا جس کے بعد اسے پانچ پولیس اہلکاروں نے تشدد کر کے ہلاک کر دیا ۔ اس واقعے کے بعد امریکی عوام میں شدید تشویش پیدا ہوئی ۔ وہ پولیس کی بربریت کے بار بار وقوع پزیر ہونے والے ان واقعات اور ان سے ہونے والی اموات سے پریشان ہیں۔ امریکہ کے درجنوں شہروں میں احتجاجی مظاہرے پھر سے شروع ہو گئے ہیں ۔لوگوں نے "انصاف کے بغیر امن نہیں ہے" اور "امریکی پولیس شہریوں کے خلاف اپنے اختیارات کا غلط استعمال کر رہی ہے" جیسے نعرے بلند کیے ہیں ۔ ایک پولیس افسر کی حیثیت سے اگر کوئی لوگوں پر تشدد کرے اور اس کی نظر میں انسانی جان کی کوئی حیثیت ہی نہ ہو یعنی محافظ ہی قاتل بن جائیں تو ایسے معاشرے میں امن کہاں پنپ سکتا ہے، حکومت کی ساکھ کیسے جانچی جا سکتی ہے اور لوگ کس طرح ایک آرام دہ اور محفوظ زندگی جی سکتے ہیں ؟
اس واقعے کو اگر قانون کی نظر سے دیکھا جائے تو قصوروار کو سزا کے ملنے پر اس کا اختتام ممکن ہے لیکن بادی النظر میں دیکھیں تو اس کی جڑیں امریکہ کی گہری نسل پرستی سے جڑی ہوئی ہیں۔ امریکہ میں ریڈ انڈین مقامی لوگ اب بھی دوسرے درجے کے شہریوں کے طور پر رہتے ہیں اور ان کے حقوق کو اب بھی پامال کیا جاتا ہے ۔ ریڈ انڈینز کے ساتھ ناروا سلوک سے لے کر موجودہ افریقی نژاد امریکی شخص ٹائر نکولس کی پولیس تشدد سے موت کے واقعے تک ، اور وبا کے پھیلنے کے دوران عوامی سطح پر ایشیائی امریکیوں پر بار بار حملے ۔یہ سب ظاہر کرتے ہیں کہ امریکہ کی سرزمین پر نسل پرستی نہ صرف آج بھی موجود ہے بلکہ اس میں اضافہ بھی ہو رہا ہے جو بلاشبہ انسانی حقوق کی سنگین توہین اور خلاف ورزی ہے۔
اب ہم امریکہ میں فائرنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات پر نظر ڈالتے ہیں، یہ کہا جا سکتا ہے کہ نئے سال میں امریکہ کو ایک بار پھر خونریز جنوری کا سامنا کرنا پڑا۔ 21 جنوری کو نئے چینی قمری سال کے موقع پر لاس اینجلس کاؤنٹی کے مونٹیری پارک سٹی کی چینی کمیونٹی میں شدید فائرنگ کا واقعہ پیش آیا جس کے نتیجے میں 11 افراد ہلاک ہوئے اور صرف کیلیفورنیا میں 3 روز میں فائرنگ کے 3 بڑے واقعات پیش آئے۔ 29 جنوری کو امریکی ویب سائٹ "گن وائلنس آرکائیو" کی جانب سے اپ ڈیٹ کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق، جنوری میں امریکہ میں بڑے پیمانے پر فائرنگ کے 44 واقعات ہوئے ، جو 2014 میں اس ایجنسی کی جانب سے اعداد و شمار جاری کرنے کے آغاز سے اس عرصے میں سب سے زیادہ ریکارڈ ہے۔ ویب سائٹ کے مطابق امریکہ میں 2022 میں بڑے پیمانے پر فائرنگ کے واقعات مسلسل تیسرے سال 600 سے تجاوز کر چکے ہیں ۔ فائرنگ کی آواز نے نام نہاد "سب کے لیے ناقابل تنسیخ آزادی" کے وہم کو ختم کر دیا ہے ۔ اگر کسی شخص کو زندہ رہنے کا بنیادی حق ہی حاصل نہیں تو دیگر انسانی حقوق کے حصول کی بات کیسی کی جاتی ہے؟
امریکہ میں نسلی امتیاز ایک ناگزیر مسئلہ بن چکا ہے۔امریکہ کے بہت سے معاشرتی مسائل نسلی عدم مساوات، گن وائلنس ، منشیات کے پھیلاؤ، مختلف نسلوں کے درمیان آمدنی اور دولت میں بڑے فرق، اور تعلیم اور روزگار کے مواقع میں سنگین عدم مساوات سے قریبی تعلق رکھتے ہیں. جیسا کہ خود امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ نظامی نسل پرستی امریکہ کی روح پر ایک داغ ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نسلی امتیاز کے تحت نام نہاد "انسانی حقوق میں مساوات "محض کاغذ پر لکھا ہوا ایک جملہ ہے ۔ امریکہ میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے تحفظ کی صورتحال اچھی ہو یا نہیں ؟ آپ پہلے یہ دیکھیں گے کہ کیا اس ملک میں اقلیتوں کے حقوق کا مؤثر طریقے سے تحفظ کیا جا سکتا ہے ؟ کیا گن وائلنس کو مؤثر طریقے سے روکا جا سکتا ہے ، اور امریکی عوام کی زندگی کے حق کی ضمانت دی جا سکتی ہے تاکہ عوام کو تحفظ کا حقیقی احساس ہو؟ کم از کم نئے سال کے پہلے مہینے میں امریکہ میں لوگوں کو ایسی کوئی امید نظر نہیں آرہی۔