امریکہ میں کیے گئے خلافِ انسانیت تجربات کے دائمی داغ

2023/02/09 16:31:43
شیئر:

دسمبر دو ہزار بائیس میں امریکہ کی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، سان فرانسسکو نے تسلیم کیا کہ گزشتہ صدی میں قیدیوں کو 'غیر اخلاقی طبی تجربات' کے لیے استعمال کیا گیا تھا ۔ اکتوبر میں فلاڈیلفیا نے گزشتہ صدی کے دوران ایک جیل میں کیے جانے والے "غیر اخلاقی طبی تجربات"  پر معذرت کی ۔اکتوبر 2010 میں، اس وقت کے امریکی صدر باراک اوباما نےایک خفیہ انسانی تجربے کے لیے گوئٹے مالا سے معافی مانگی۔ان غیراخلاقی تجربات سے امریکی شعبہِ طب کا منافع کی تلاش کا حقیقی چہرہ عیاں ہوگیا ہے۔ تاریخی ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ 1951 سے 1974 تک فلاڈیلفیا  کی ہومزبرگ جیل میں سینکڑوں قیدیوں کو جان بوجھ کر انسانی تجربات کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ان تحقیقات میں امریکہ کی نامور فارماسیوٹیکل کمپنیز اور فوج  ملوث ہے۔ہومزبرگ جیل کو اس وقت ، امریکہ کا سب سے بڑا انسانی تجرباتی مرکز کہا جا سکتا ہے اور ان تجربات کو زیادہ تر افریقی قیدیوں پر کیا جاتا تھا۔
سال 1932 سے امریکی ادارہ صحت کے اہلکار نے الاباما میں " آتشک کےمفت علاج" کے نام پر، 600 سیاہ فام مردوں کو انسانی تجربات کے لیے بھرتی کر لیا اور یہ تحقیقات 1972 میں میڈیا میں بے نقاب ہونے کے بعد مجبوراً ختم کی گئیں۔ حالیہ برسوں میں بھی اس قسم کے کیسز کو بے نقاب کیا جا رہا ہے۔سال 2022 میں  یونیورسٹی آف کیلیفورنیا نے ایک رپورٹ جاری کی جس کے مطابق یونیورسٹی کے دو ماہرین نے سن انیس سو ساٹھ یا ستر کے عشرے میں ایک جیل ہسپتال میں دسیوں غیراخلاقی طبی تجربات کیے تھے اور سال 1946 سے 1948 تک امریکی محقیقین نے گوئٹے مالا کی ایک جیل میں جان بوجھ کر بغیر معلومات یا بغیر اجازت کے کچھ قیدیوں کو آتشک اور سوزاک میں مبتلا کیا اور  پھر ان پر دوا  کا تجربہ کروایا گیا ۔ 
مذکورہ انسانی تجربات "نقصان سے پاک ہونے" کے بنیادی طبی اصول کی خلاف ورزی ہیں اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ متعدد امریکی محققین ، خفیہ تحقیقات کر رہے ہیں اور وہ جن پر تحقیق کرتے ہیں انہیں اپنی طرح کا ایک انسان نہیں سمجھتے ہیں ۔