امریکی ریاست اوہائیو میں زہریلے کیمیکلز لے جانے والی مال بردار ٹرین کے پٹری سے
اترنے کے باعث ماحول پر پڑنے والے تباہ کن اثرات کا مکمل تعین 10روز بعد بھی نہیں
کیا جا سکا۔ 3 فروری کو ریاست اوہائیو کے سرحدی قصبے میں مال برادر ٹرین کی
تقریباً 50 بوگیاں پٹری سے اتر گئی تھیں جن میں سے دس میں خطرناک کیمیکلز تھے ۔
زہریلے کیمیکل کے اخراج کی وجہ
سےاس علاقے کے رہائشیوں کو محفوظ مقامات پرمنتقل کیا گیا تھا جنہیں بعد ازاں واپس
جانے کی اجازت دے دی گئی،لیکن علاقے میں ان خطرناک گیسوں کی تاحال موجودگی کے باعث
ان لوگوں کو شدید طبی مسائل کا سامنا ہے۔حادثے کا شکارہونے والی بوگیوں میں ونائل
کلورائیڈ، ایتھیلین گلائکول مونو بیوٹیل ایتھر، آئسوکٹائل ایکریلیٹ اور
آئسوبیوٹیلین وغیرہ شامل تھے ۔
اوہائیو میں ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ حادثہ
،کیمیکل سے ایک قصبے کو تباہ دینے کے مترادف ہے،جس کے نتیجے میں پانچ سے بیس سال کے
بعد کافی زیادہ مقامی لوگ کینسر کا شکار ہو سکتے ہیں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ
امریکی میڈیا نے اس حادثے پر خاص توجہ نہیں دی ہے نیز ایک صحافی کو لائیو
براڈکاسٹنگ کے دوران حراست میں بھی لیا گیا تھا۔یہ بات قابلِ افسوس ہے کہ جب امریکی
عوام کی زندگیاں اور ان کا ماحول اس قدر سنگین خطرے سے دوچار ہے تو ان کو اس کے
بارے میں جاننے کے بنیادی حق سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔
دوسری طرف اس ٹرین
حادثے میں ملوث این ایس سی کمپنی کے حوالے سے رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اس
کمپنی نے پیسے بچانے کے لیے ٹرین پر ای سی پی بریکنگ سسٹم لگانے کو مسترد کیا تھا
۔ماہرین کے مطابق ،اگر ای سی پی بریکنگ سسٹم ہوتا تو ٹرین پٹری سے اترنے سے بچ سکتی
تھی۔
تیرہ تاریخ کو امریکی وزیر ٹرانسپورٹ پیٹ بٹٹیگئیگ نے ایک تقریب میں
بنیادی تنصیبات کے جاری منصوبوں کی بے حد تعریف کی تاہم اوہائیو میں ہونے والے
حادثے کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا۔
جب کمپنیز صرف منافع پر توجہ دیتی
ہوں ،سیاستدان انسانیت اور اخلاقیات کو نظرانداز کرتے ہوں،تو پھر امریکی عوام
کی زندگیوں کا تحفظ کون کرے گا؟