حال ہی میں چین کے اعلیٰ ترین فیصلہ ساز اجلاس میں انسداد وبا کی حالیہ رپورٹ سننے کے بعد کہا گیا کہ گزشتہ تین سالوں کے دوران چین نے انسداد وبا کی پالیسیوں اور اقدامات کو بروقت بہتر اور ایڈجسٹ کرتے ہوئے وبا کی روک تھام اور کنٹرول اور معاشی و سماجی ترقی کو مؤثر طریقے سے مربوط کیا ہے، تیز انفیکشن اور شدید شرح اموات کے حامل وائرس کے بڑے پیمانے پر پھیلاؤ کی روک تھام میں کامیابی حاصل کی اور یوں چینی عوام کی جان و صحت کی مؤثر طریقے سے حفاظت کی ہے۔ خاص طور پر نومبر 2022 کے بعد سے چین انسداد وبا کے اپنے اقدامات کو بہتر بناتے ہوئے وبائی امراض کی روک تھام اور کنٹرول کو نسبتاً کم وقت میں مستحکم طریقے سے نئے مرحلے میں داخل کرنے میں کامیاب ہوا اور ساتھ ہی ساتھ دنیا میں اموات کی سب سے کم شرح کو برقرار رکھا گیا،جوکہ نہ صرف انسداد وبا کے حوالے سے ایک بڑی اور فیصلہ کن فتح ہےبلکہ انسانی تہذیب کی تاریخ میں ایک معجزہ بھی ہے کہ بڑی آبادی والا ملک کامیابی سے وبا سے نکلا ہے۔
آج اگر ہم پیچھے مڑکر 2020 کے انتہائی مشکل ترین موسم سرما کی یادیں تازہ کریں تو یہ نظر آتا ہے کہ یہ چینی قوم کی تین سالہ جدوجہد کی وجہ سے ہی ممکن ہوا کہ چین مشکل سے نکل آیا ہے۔ چین وبا سے لڑنے میں شروع ہی سے متحد رہا ہے۔ فروری 2020 میں جب وبا شدت اختیار کر رہی تھی، شہر ووہان میں کووڈ-19 کے شکار مریضوں کے علاج و معالجے کے لئے 25،000 مربع میٹر اور 1،000 بستروں پر مشتمل حو شن شان نامی ہسپتال کی فوری طور پر تعمیر کی گئی تھی اور اس کی تعمیر کے فیصلے سے اس کی تکمیل اور فعال ہونے تک صرف 10 دن لگے! گزشتہ تین برسوں کے دوران چین کو عالمی وبائی امراض کی پانچ لہروں کا سامنا کرتے ہوئے 1.4 ارب سے زائد افراد کی زندگیوں کے بڑی حد تک تحفظ کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی اور تشخیص اور اموات کی شرح دونوں ہمیشہ دنیا میں سب سے کم سطح پر رہی ہیں۔ امریکہ کی جان ہاپکنز یونیورسٹی کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 9 دسمبر 2022 تک امریکہ میں کووڈ-19سے ہونے والی اموات کی تعداد 1,084,300 تھی جبکہ چین کی تعداد 106100 تھی ، یعنی چین میں اموات کے کیسز کی تعداد امریکہ کا 1.49 فیصد، برطانیہ کا 7.56 فیصد، فرانس کا 10.05 فیصد اور جرمنی کا 10.16 فیصد تھی۔ بین الاقوامی شہرت یافتہ طبی جریدے دی لانسیٹ کے اعداد و شمار کے مطابق وبائی پھیلاؤ کے دوران دنیا میں کووڈ-19 سے براہ راست یا بالواسطہ طور پر اموات کی مجموعی تعداد تقریباً 18.2 ملین تھی۔عالمی شرح اموات 120 افراد فی لاکھ تھی جبکہ چین میں 0.6 افراد فی لاکھ تھی، جو عالمی معیارکا صرف 5 ہزار واں حصہ تھا۔ اس حوالے سے امریکہ میں اموات کی شرح 1,790 افراد فی لاکھ تھی۔ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق چین میں کورونا وائرس کی تشخیص کی شرح عالمی اوسط کا 1/374 ہے اور اموات کی شرح عالمی اوسط کا 1/232 ہے، دونوں دنیا میں سب سے کم سطح پر ہیں۔یہ اعداد و شمار کووڈ-19 کی وبا سے لڑنے کے گزشتہ تین سالوں کے چینی معجزے کا زندہ ثبوت ہیں۔
وبائی پھیلاؤمیں اتار چڑھاؤکے باوجود چین نے سائنسی طور پر وبائی امراض کی روک تھام اور کنٹرول اور معاشی اور معاشرتی ترقی کو مربوط کرتے ہوئے عالمی پیمانے پر اطمینان بخش جوابات پیش کیے۔ 2020 میں چین مثبت معاشی ترقی حاصل کرنے والی دنیا کی واحد بڑی معیشت بنا۔ 2021 میں چین کے جی ڈی پی کا پیمانے 110 ٹریلین یوآن سے تجاوز کرگیا۔ 2022 میں چین کی معیشت میں استحکام اور بحالی کا رجحان برقرار رکھا گیا. گزشتہ تین سالوں کے دوران، چین کی اوسط سالانہ معاشی ترقی 4.5 فیصد سے بڑھی ہے، جو عالمی معیشت کی اوسط شرح نمو 1.8 فیصد سے بہت زیادہ ہے، اور امریکہ اور یورپ کے 1.6 فیصد اور 0.7 فیصد سے بھی زیادہ ہے. غیر مستحکم عالمی اقتصادی اور تجارتی ماحول کے پس منظر میں ، چین نے پیداوار اور برآمدات کو مستحکم کرنے کے لئے مؤثر اقدامات اپنائے ہیں ، جس سے عالمی صنعتی و سپلائی چین کو تحفظ ملا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ چین فعال طور پر درآمدات کو بڑھا رہا ہے، صرف 2022 میں چین کا درآمدی حجم 2.71 ٹریلین امریکی ڈالر تک پہنچا، جو عالمی معیشت کی ترقی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
چین کھلے پن اور تعاون پر مبنی رویے کے ساتھ انسداد وبا کے بین الاقوامی عمل کو مؤثر طریقے سے فروغ دیتا رہا ہے.دنیا میں کووڈ ویکسین کو 'عالمی پبلک گڈز' قرار دینے والے پہلے ملک ، ویکسین کی انٹلیکچوئل پراپرٹی کے حقوق مفت کرنے کی حمایت کرنے والے پہلے ملک اور ترقی پذیر ممالک کے ساتھ ویکسین کی پیداوار میں تعاون کرنے والے پہلے ملک کے طور پر، چین بین الاقوامی برادری کو ویکسین اور انسداد وبا کا مواد فراہم کرنے کے لئے اپنی پوری کوشش کرتا چلا آرہا ہے. تاحال چین نے 120 سے زائد ممالک، علاقوں اور بین الاقوامی تنظیموں کو کووڈ- 19 ویکسین کی 2.2 بلین سے زیادہ خوراکیں فراہم کی ہیں ، یوں چین بیرونی دنیا کو ویکسین فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے۔ ان ممالک میں سے اکثریت ترقی پذیر ممالک ہیں۔ چین کی جانب سے فراہم کی جانے والی ویکسینز نے بہت سے ترقی پذیر ممالک میں مدافعتی دیوار کےقیام اور سماجی زندگی کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا ہے اور وبا سے لڑنے کے لیے ترقی پذیر ممالک کی صلاحیت، اعتماد اور عزم میں اضافہ کیا ہے۔
گزشتہ تین سالوں میں ان وجوہات کی بنیاد پر چین میں انسداد وبا کی بڑی اور فیصلہ کن فتح کا حصول ممکن ہوا کہ چینی حکومت نے ہمیشہ سے لوگوں کی جان و صحت کو اولین ترجیح دی ہے اور وبا سے لڑنے کے لئے تمام قوتوں اور وسائل کو متحرک کیا ہے۔ سخت محنت سے حاصل کی گئی اس فتح کا مطلب یہ نہیں کہ چین نے وبا کی روک تھام اور اس پر قابو پانے کا عمل ختم کر دیا ہے۔ عالمی وبائی پھیلاؤ اور وائرس کی تبدیلی کا عمل اب بھی جاری ہے ۔ اس وقت چین میں انسدا وبا کا مجموعی رجحان اچھا رہا ہے اور یہ معمول کی روک تھام اور کنٹرول کے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ چین متعلقہ میکانزم اور اقدامات کو بہتر بنانے، نئے مرحلے میں وبا کی روک تھام اور کنٹرول کے کام کو مضبوط بنانے اور صحت کی خدمات کے نظام کو مضبوط بنانےمیں مصروف عمل ہے۔ حقائق نے ثابت کر دیا ہے کہ وبائی صورتحال کے بارے میں چین کے فیصلے اور متعلقہ اقدامات کی اہم ایڈجسٹمنٹ درست اور مؤثر ثابت ہوئے ہیں جنہیں چینی عوام اور بین الاقوامی برادری کی طرف سے وسیع پیمانے پر پزیرائی اور تعریف حاصل ہوئی ہے.