تین فروری کو امریکہ میں زہریلے کیمیکل لے جانے والی ایک مال بردار ٹرین ریاست اوہائیو کے قصبے مشرقی فلسطین میں پٹری سے اتر گئی اور اس میں آگ لگ گئی۔ آج تک اس حادثے کے اثرات مقامی رہائشیوں کی زندگیوں کو شدید پریشان کر رہے ہیں. یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ ایک حادثہ پیش آیا، لیکن اس سے بھی زیادہ خوفناک بات یہ ہے کہ حکومت اس سے کس طرح نمٹ رہی ہے۔ اس دفعہ امریکی حکومت نے لوگوں کی صحت اور سلامتی کو نظر انداز کرکے انہیں مایوس کیا ہے ۔
اس حادثے میں تقریبا 1.1 ملین پاؤنڈ ہائی کنسنٹریشن وینیل کلورائڈ لیک ہوا، جو ایک عام کیمیائی فیڈ سٹاک ہے۔ وینیل کلورائڈ کی امریکی سینٹر فار ڈزیز کنٹرول اینڈ پریونشن کی جانب سے کلاس ون کارسینوجن کے طور پر درجہ بندی کی گئی ہے۔ حادثے کے بعد دیکھا گیا کہ بڑی تعداد میں مقامی پانیوں میں مچھلیاں مردہ پائی گئیں، رہائشیوں کے پالتو جانور مر گئے اور جلے ہوئے ٹائروں جیسی تیز بو نے ارد گرد کی ہوا کو بھر دیا۔ اس کے علاوہ مقامی رہائشیوں میں متعدد طبی علامات بھی ظاہر ہو رہی ہیں ، جیسے کہ آنکھوں میں جلن ، چکر آنا اور متلی وغیرہ۔ لیک ہونے والی زہریلی گیس سے کیسے نمٹا جائے یہ ایک اہم بات ہے ،لیکن کس نے سوچا ہوگا کہ دنیا کی نمبر ون طاقت اور سائنس و ٹیکنالوجی میں رہنما کی حیثیت سے امریکہ ،لیک ہونے والی زہریلی گیس سے اتنی لا پرواہی سے نمٹے گا۔ اس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی حکومت اور متعلقہ محکمے لوگوں کی صحت اور حفاظت کی پرواہ نہیں کرتے اور ماحولیاتی تحفظ کے لیے کسی بڑے ملک کی حیثیت سے ذمہ داری نہیں اٹھاتے جو نہ صرف مایوس کن ہے بلکہ یہ بھی واضح کرتا ہے کہ امریکہ جو صرف مالی مفادات کا خیال رکھتا ہے اور لوگوں کی صحت کو نظر انداز کرتا ہے، اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ اسے لوگوں کی جانب سے بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
بین الاقوامی قوائد کو سامنے رکھتے ہوئے روایتی خطرناک اشیاءسے نمٹنے کےعمل کے مطابق، لیکج سائٹ کو پہلے سیل کیا جانا چاہیے اور پھر لیک ہونے والے خطرناک مادوں کو بڑی مقدار میں پانی کے ذریعے پتلا کیا جائے اور آخر میں آلودہ پانی کو جمع کرکے اسٹوریج ٹینکوں میں بند کر دیا جائے ۔ لیکن یہ عمل کئی ماہ تک جاری رہ سکتا ہے اور مہنگا بھی ہوتا ہے، اس لیے امریکہ نے ایک ہی وقت میں 1.1 ملین پاؤنڈ وینیل کلورائڈ کو آگ لگا کر تلف کرنے کا فیصلہ کیا ۔ ان امور کے ایک امریکی ماہر کازیانو نے میڈیا کو بتایا کہ ان کی پیشہ ورانہ زندگی کی گزشتہ 39 سالوں کے دوران انہوں نے کبھی نہیں سنا کہ اس طرح کے حادثے کے بعد کسی نے تمام کیمیکلز کو کھائی میں ڈال کر آگ لگا دی ہو،امریکی حکومت کے اس ردِ عمل پر وہ کافی حیران ہیں ۔ ان کا اندازہ ہے کہ اس غفلت کی وجہ سے آئندہ 5 سے 20 سال کے دوران اس علاقے کے بہت سے لوگوں کو کینسر لاحق ہو سکتا ہے۔
مجھے یقین نہیں ہے کہ امریکہ کے متعلقہ محکمے اس بات کو نہیں سمجھتے کہ وینیل کلورائڈ جلانے سے بڑی تعداد میں نقصان دہ مادے پیدا ہوں گے، لیکن امریکی حکومت نے ایک محفوظ اور زیادہ ماحول دوست طریقہ ترک کر کے اس زہریلے مادے کو جلانے کا انتخاب کیا ہے، جو انتہائی نقصان دہ اور غیر ذمہ دارانہ اقدام ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت لوگوں کی زندگی اور صحت کو نظر انداز کرتی ہے، جس سے عوام حکومت سے انتہائی مایوس نظر آتے ہیں۔
حادثے کے بعدبہت سے مقامی افراد میں تکلیف دہ طبی علامات ظاہر ہوئیں، لیکن 14 فروری کو ایک پریس کانفرنس میں اوہائیو کے گورنر ڈیوین نے اصرار کیا کہ گھر واپس آنا سب کے لیے محفوظ ہے اور دیگر محکموں کے حکام نے بھی بار بار اعلان کیا کہ حادثے سے متاثرہ علاقے میں پانی اور ہوا محفوظ ہے۔ کیا آپ جانوروں کی موت اور لوگوں میں شدید تکلیف کی علامات نہیں دیکھ سکتے ؟ عوام کو اس طرح بیوقوف بنانے والی حکومت کی ساکھ کہاں ہے؟ گزشتہ ہفتے مشرقی فلسطین علاقے کے سینکڑوں باشندے سٹی ہال میں جمع ہوئے اور حکومت سے مقامی پانی کے معیار کی تصدیق کا مطالبہ کیا، لیکن کسی نے انہیں آلودگی کی اصل صورتحال کے بارے میں نہیں بتایا۔ اس زہریلے کیمیائی اخراج کے حوالے سے کم از کم چھ اجتماعی مقدمے چل رہے ہیں ۔
امریکی حکومت کا سست ردعمل اور اس واقعے سے غیر مناسب طریقے سے نمٹنا، لوگوں کی صحت اور سلامتی کو سنگین طور پر نظر انداز کرنے کی عکاسی کرتا ہے۔