پانچ ڈالر سے چار لاکھ ڈالر۔انسانیت کو شرمندہ کرتی کہانی

2023/02/22 11:17:26
شیئر:

مقامی وقت کے مطابق 3 فروری کو زہریلے کیمیکلز سے بھری ایک مال بردار ٹرین امریکی ریاست  اوہائیو میں مشرقی فلسطین نامی ایک قصبے کے قریب  پٹری سے اتر  گئی۔حادثے میں 1.1 ملین پاؤنڈ انتہائی مرتکز ونائل کلورائیڈ لیک ہو گئی،جو یو ایس سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کی جانب سے کارسنجن کے طور پر درج ہے۔ بچت کی خاطر مقامی حکومت نے زہریلے مواد کو جلا دیا جس سے اب  وہاں کے عوام طویل مدت  تک زہریلے مادوں سے متاثر  ہوں گے ،لیکن متعلقہ ٹرین کمپنی نے اس کو عوض  ہر خاندان کو صرف  5 ڈالر کا معاوضہ دیا ۔دوسری جانب ہوا میں چند سول ایئرشپ کو مارنے کے لیے امریکہ نے 400000 ڈالر کے میزائل کا استعمال کیا ہے۔اس کے پیچھے کیا منطق ہے؟ شاید یہ صرف امریکی سیاستدان جانتے ہیں۔

بین الاقوامی طرز عمل کے مطابق ،خطرناک مواد کے لیکج کے بعد جائے وقوعہ کو بند کر کے اس مواد  کے لیے  زیادہ پانی استعمال کیا جاتا ہے تا کہ مواد  میں موجود زہریلے مادوں کے خطرات  کو کم کیا جا سکے ،پھر اس آلودہ پانی کو اسٹوریج ٹینک میں محفوظ کیا جاتا ہے۔تاہم بین الاقوامی طرز عمل امریکہ میں نہیں چلتا۔مقامی حکومت نے پٹری سے اترنے والی ٹرین کی کمپنی سمیت  بعض اداروں کی تجاویز سن کر ونائل کلورائیڈکو جلا دیا۔یہ سب سے کم قیمت اور سب سے کم وقت لگنے والا حل تھا،تاہم مقامی عوام کی صحت اور زمین و پانی پر نقصانات طویل مدتی اور ناقابل پیمائش ہیں۔اس وقت وہاں کچھ جانورزہریلے مواد کی بنا پر  مر چکے ہیں اور مقامی آبادی پریشانی کا شکارہے ۔ابھی تک کسی نے آلودگی کی حقیقی حد نہیں بتائی اور مقامی آبادی کو  اپنی صحت سے متعلق امور پر جاننے کا حق بھی نہیں مل سکا۔

اس سلسلے میں امریکی سیاستدانوں کی کارکردگی بھی قابل ذکر ہے۔امریکی سیکریٹری ٹرانسپورٹ پیٹ بٹگیگ اس حادثے  کے بعد دس دن تک لاپتہ رہے۔  پھر تیرہ تاریخ کو رائے عامہ کے دباؤ کے تحت آخر کار منظر عام پر آئے اور انہوں نے جو پہلا کام کیا ،وہ اس معاملے سے توجہ ہٹانا تھا ۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ کئی برسوں  میں امریکی آمدورفت کے نظام کو مسائل درپیش ہیں جن میں وبائی صورتحال،کنٹینر زکی نقل و حمل،ہوائی پروازوں کی منسوخی وغیر شامل ہیں ۔اب ایئرشپ کا ایک اور مسئلہ رونما ہوا ہے۔چودہ تاریخ کو انہوں نے اس حادثے کا ذمہ دار ٹرمپ انتظامیہ کو   ٹھہرانے کی کوشش کی۔ان سیاستدانوں کا طرز عمل یہ ہے کہ  زمین پر ہونے والے  ٹرین حادثے پر توجہ  کو ہوا میں اڑنے والے ایئر شپ سے ہٹایا جائے،مستقبل میں عوام کی صحت کی ذمہ داری کو گزشتہ حکومتی پالیسی پرٹھہرایا جائے اور تمام غلطیوں کی ذمہ داری کو دوسروں پر عائد  کردیا جائے ۔

اطلاعات ہیں  کہ مشرقی فلسطین قصبے کی آبادی 5000 سے بھی کم ہے اور بیشتر آبادی غریب سفید فام ہیں۔اس حادثے کے بعد کافی عرصے تک  امریکہ کے مین اسڑیم میڈیا پر  اس حوالے سے بہت کم  خبریں دیکھی گئیں ۔فاکس نیوز کے ایک میزبان کارسن نے اعتراف کیا  کہ اگر اس حادثے میں امیر لوگ یا " ڈیموکریٹک ووٹرز "متاثر ہوتے ،تو  یہ واقعہ عالمی  خبروں میں نمایاں ہوتا۔لیکن یہ اوہائیو کے مشرقی فلسطین میں رونما ہوا ہے اور یہ ایک نظر انداز قصبہ ہے۔ اس لیے اس ملک میں ان  کے حقوق پر آواز اٹھانے والا اور ان کا خیال رکھنے والا کوئی نہیں ۔

مصیبتوں میں رہنے والے  اس چھوٹے قصبے کا خیال  کسی نے نہیں  رکھا اور دوسری جانب  ہوا میں اڑنے والے "واڈرنگ بلون"مین اسٹریم میڈیا کی اہم خبروں کا حصہ ہیں ۔بین الاقوامی طرز عمل کے مطابق،کسی ملک کی فضائی حدود میں غیردانستہ داخل ہونے والے سول ایئر کرافٹ کو عام طور پر خبردار کرنے،جانے دینے ،اسے   escort     کرنے اور جبری لینڈنگ کرانے جیسے اقدامات اختیار کیے جاتے ہیں۔لیکن یہاں بھی وہی اصول ہے کہ " بین الاقوامی طرز عمل امریکہ میں نہیں چلتا"۔چین نے کئی  باروضاحت کی ہے کہ چین کا سول ایئرشپ غیردانستہ امریکی فضائی حدود میں داخل ہوا تھا،تاہم امریکہ نے اس سول ایئرشپ  کو مارنے کے لیے  میزائل چھوڑنے پر اصرار کیا۔ایک میزائل کی قیمت چار لاکھ  ڈالرسے زائد ہے اور اس عمل میں کئی میزائل نشانے پر بھی  نہ تھے ۔مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ امریکی رہنما نے حال ہی میں کہا ہے  کہ اس  بات کا ثبوت نہیں ہے کہ حالیہ دنوں مارے جانے والے تین ایئرشپ کا تعلق چین سے ہے۔میڈیا نے انکشاف کیا کہ گرنے والے ایئر شپس کچھ  شوقیہ شائقین ، معلم اور سائنس دان کے ہو سکتے ہیں اور اس قسم کے ایئرشپ کی قیمت 12 سے 180 ڈالر تک بنتی ہے۔ یعنی چار لاکھ ڈالر کے میزائل سے بارہ ڈالر کے سول ایئرشپ کو مارا  گیا لیکن جب  مسئلہ امریکی شہریوں کی صحت سے تعلق رکھتا ہے،تو سیاستدان اپنی ذمہ داری سے ہٹ جاتے ہیں،مین اسٹریم میڈیا خاموش  رہتا ہے اور متعلقہ کمپنی ہر  متاثرہ خاندان کو  صرف پانچ ڈالر کا معاوضہ دینے پر متفق  ہے۔  یعنی جب بات دوسرے ملک پر الزام لگا نے کی ہو اور" سیاسی شو" کا موقع دکھا رہا ہو تو سیاستدان سرگرم رہتے ہیں ،میڈیا پروپیگینڈا  میں مصرف رہتا ہے اور چار لاکھ ڈالر کے میزائل کو ہوا میں چھوڑنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہوتی ۔ سیاسی مفادات  کو عوامی صحت کے مسائل پر مقدم  رکھا جاتا ہے،بین الاقوامی طرز عمل کو امریکی بالادستی کے سامنے نظر انداز کیا جاتا ہے اور  دنیا کا ایک بڑا ملک  اپنی تمام ذمہ داری اور اخلاقیات سے دور نظر آتا ہے ۔ سی پی سی سینٹرل کمیٹی کے فارن افیئرز کمیشن کے دفتر کے ڈائریکٹر وانگ ای نے ایسا تبصرہ کیا ہے کہ اب ہم دیکھ  چکے ہیں  کہ امریکہ نے تمام چھلاورن کو پھاڑ دیا ہے اور اب کوئی چال نہیں ہے، صرف لوٹ مار ہے۔