چین کو بدنام کرنے کی ایک اور امریکی سازش اور اس کے حقائق

2023/03/02 16:19:52
شیئر:

 گزشتہ نصف ماہ سے امریکی سیاست دان، حکومت، آن لائن دنیا اور میڈیا میں ان کے معاون ،نام نہاد "چینی جاسوس غبارے کے امریکی فضائی حدود میں داخلے " کے واقعے کی تشہیر کر رہے ہیں، تاکہ چین کو بدنام کیا جا سکے اور "چین کے خطرے کے نظریے" کو بھڑکایا جا سکے۔ تاہم اس معاملے پر چین کے ٹھوس ردعمل نے خود امریکہ کو شرمندہ کر دیا ہے اور غباروں کو مار گرانے میں  لاکھوں ڈالر مالیت کے میزائل داغنے کے لیے ایف 22 لڑاکا طیاروں کا استعمال جگ ہنسائی کا باعث بن چکا ہے۔اس کے نتیجے میں چین کو بدنام کرنے کے لئے امریکی سیاستدانوں اور نیوز میڈیا میں ان کے معاون نے ایک پرانی افواہ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا شروع کر دیا جس کی بین الاقوامی سائنسی برادری نے کئی بار تردید کی ہے۔ یعنی کووڈ وائرس چین کے ووہان وائرس لیبارٹری سے لیک ہوا۔ اس معاملے کو سب سے پہلے ابھارنے والے امریکی اخبار "وال اسٹریٹ جرنل اور اس کے رپورٹر مائیکل آر گورڈن تھے.
 معلوم ہوا  ہےکہ گورڈن اور وال اسٹریٹ جرنل کی جانب سے اس معاملے کو دوبارہ بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی وجہ امریکی محکمہ توانائی کی جانب سے حال ہی میں امریکی وائٹ ہاؤس اور امریکی کانگریس کو پیش کی گئی پانچ صفحات سے بھی کم پر مشتمل 'خفیہ' انٹیلی جنس رپورٹ تھی۔ رپورٹ میں امریکی محکمہ توانائی نے اعلان کیا ہے کہ کورونا وائرس "ووہان انسٹی ٹیوٹ آف وائرولوجی سے آنے کا زیادہ امکان ہے۔ اگرچہ 'کلاسیفائیڈ' انٹیلی جنس رپورٹ دیکھنے والے افراد نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ امریکی محکمہ توانائی خود اس نتیجے کے بارے میں نسبتا غیر یقینی کا شکار  ہے،اس لیے اس نے اس ر پورٹ کو 'کم اعتماد' کی درجہ بندی میں شامل کیا ہے ، لیکن گورڈن اور وال اسٹریٹ جرنل کی ہیڈ لائن اور الفاظ  کے تحت اس معاملے کو اس طرح بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا  جیسے یہ امریکی انٹیلی جنس کی کوئی بڑی کامیابی  ہو۔ امریکہ میں متعدی امراض کے معروف ماہر فاؤچی کو بھی اس معاملے کی وجہ سے ایک بار پھر تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔ کیونکہ امریکہ میں ان جیسے  ریپبلکن دائیں بازو کے لوگوں کا ہمیشہ سے یہ ماننا رہا ہے کہ کووڈ وائرس فاؤچی نے ووہان وائرس انسٹی ٹیوٹ کے تعاون سے بنایا تھا۔
وال اسٹریٹ جرنل اور گورڈن کی منطق کے مطابق یہ  خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ شاید  امریکہ کے اپنے صحتی تحقیقی اداروں سمیت دنیا کے تمام سائنسدان اور وائرولوجسٹ  کووڈ وائرس کے بارے میں امریکی محکمہ توانائی سے زیادہ نہیں جانتے ہوں گے۔ درحقیقت، امریکی محکمہ توانائی کے تحت 17 قومی لیبارٹریوں کی اکثریت میٹیریل سائنس اور انرجی  سائنس میں مصروف ہے. جہاں تک حیاتیاتی تحقیق میں شامل چند لیبارٹریوں کی بات ہے تو تحقیق میں شامل شعبے کورونا وائرس کے ماخذ اور وبا کی تحقیقات کے لیے درکار خصوصی شعبوں سے مطابقت بھی  نہیں رکھتے۔ 
ہم امریکی محکمہ توانائی کے ساتھ ساتھ وائٹ ہاؤس اور کانگریس سے بھی مطالبہ کر تے ہیں کہ وہ اس نام نہاد "کلاسیفائیڈ انٹیلی جنس رپورٹ" کو جلد از جلد جاری کریں، تاکہ چین اور دنیا بھر کے سائنسدان اس حقیقت کو  دنیا کے سامنے  آشکار کر سکیں  کہ  امریکی کس طرح سائنسی اور تحقیقی معاملات کو اپنے فائدے اور  سیاست  کے لیےاستعمال کر رہے ہیں۔ یہ بات بھی  قابل ذکر ہے کہ گورڈن اور وال اسٹریٹ جرنل کی اس رپورٹ نے بہت سے بین الاقوامی شہرت یافتہ وائرولوجسٹ کی تنقید کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے۔