بیجنگ میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات کی بحالی کا معاہدہ غیر متوقع نہیں ہے، سی ایم جی کا تبصرہ

2023/03/12 16:18:10
شیئر:

10 مارچ  کو چین، سعودی عرب اور ایران نے بیجنگ میں سہ فریقی مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے اعلان کیا کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کا معاہدہ طے پا گیا ہے اور تینوں ممالک نے بین الاقوامی اور علاقائی امن و سلامتی کو مضبوط بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے پر آمادگی کا اظہار بھی کیا ہے۔
اس معاہدے کے بعد سعودی عرب اور  ایران کے درمیان تعلقات  کے ایک نئے باب کا آغاز ہوا ہے۔متعدد بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے  اس حوالے سے  "مشرق وسطیٰ کی سفارت کاری کے لیے یہ ایک بہت بڑی پیش رفت ہے"، " یہ ایک تاریخی سنگ میل ہے" جیسے مثبت تجزیے پیش کیے ہیں ۔ یہاں تک کہ وہ مغربی ذرائع ابلاغ جو چین کے بارے میں ہمیشہ متعصبانہ رویہ رکھتے ہیں، انہوں نے بھی چین کی ثالثی کی کوششوں کی توثیق کی ہے۔
تاریخی طور پر، زیادہ تر لوگ اس بات سےواقف ہوں گے کہ یہ کامیابی کتنی مشکل سے حاصل کی گئی ہے. سعودی عرب اور ایران بالترتیب مسلمانوں کے سنی اور شیعہ مسلک کےنمائندے ہیں اور طویل عرصے سے شام کے بحران، لبنان کی صورتحال اور یمن کی خانہ جنگی پر ایک دوسرے کے حریف ہیں،انہیں "مشرق وسطی کے پرانے دشمن" کہا جاتا ہے۔ گزشتہ سات سالوں میں بہت سے ممالک نے ثالثی کی کوشش کی ، لیکن  کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی۔ اس تناظر میں دونوں ممالک نے چینی فریق کی ثالثی میں سفارتی تعلقات بحال کرنے کا فیصلہ کیا اسی لیے کچھ غیر ملکی ذرائع ابلاغ کی جانب سے اسے "غیر متوقع" قرار دیا جانا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ 
 درحقیقت مشرق وسطیٰ کی بدلتی ہوئی صورتحال پر گہری نظر اور چین کی سفارتی کوششوں کے بارے میں گہری بصیرت رکھتے ہوئے دونوں ممالک کے لیے بیجنگ میں مصالحت کرنا  ایک 'مناسب ' عمل  ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران مغربی ممالک نے امریکہ کی سرکردگی میں مشرق وسطیٰ کے اندر مسلسل تضادات اور تنازعات پیدا کیے ہیں جس کا نتیجہ مقامی بد امنی کے طور پر سامنے آیا ۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک پر یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ امریکہ ناقابل اعتبار ہے، صرف مذاکرات اور امن ہی مسئلے کو حل کر سکتے ہیں اور یہ کہ خطے کی تقدیر مشرق وسطی کے تمام ممالک کے عوام کے ہاتھوں میں ہونی چاہیے۔اس دفعہ یہی آگہی دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات بحال کرنے کے فیصلے کی محرک ہے۔ 
بیجنگ میں ہی مذاکرات کا انتخاب کیوں کیا گیا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ چین نے ہمیشہ مشرق وسطیٰ کے ممالک کی تزویراتی خودمختاری کی حمایت کی ہے   اور مذاکرات اور مشاورت کے ذریعے مسائل کے حل میں ہمیشہ ان کا ساتھ دیا ہے۔ چین جانب دار نہیں ہے ،ذاتی مفادات تلاش نہیں کرتا اور کسی بھی طرح کی گروہ بندی میں ملوث نہیں ہوتا ہے۔ چین ایک سچا اور مخلص  دوست  ہےجس پر مشرق وسطیٰ کے ممالک اعتبار کر سکتے ہیں۔ بیجنگ میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان ہونے والے اس مکالمے کو تینوں ممالک کے رہنماؤں کے درمیان ہونے والے اتفاق رائے کی بنیاد پر فروغ دیا گیا تھا۔
اپریل 2022 میں صدر شی جن پھنگ نے گلوبل سکیورٹی انیشی ایٹو کی تجویز پیش کی اور اس بات  پرزور دیا کہ تمام ممالک امن برقرار رکھنے اور مل کر پرامن ترقی کے راستے پر چلنے کی ذمہ داری کا اشتراک کریں۔ رواں سال فروری میں چین نے گلوبل سکیورٹی انیشی ایٹو کا کانسیپٹ پیپر جاری کیا ،جس میں اس کے نفاذ کے لیے مزید تفصیلی روڈ میپ پیش کیا گیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں ممالک کی جانب سے دشمنی ختم کرنے کا یہ  عمل گلوبل سیکیورٹی انیشی ایٹو کے تصور کا علمبردار ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس انیشی ایٹوکو مشرق وسطی کے ممالک نے تسلیم کیا ہے اور اس کا بھرپور  جواب دیا ہے.
اس سے بھی زیادہ اہم  بات یہ ہے کہ دونوں  کی مفاہمت، شورش زدہ دنیا کے لیے ایک بڑی خوش خبری ہے کہ یہ  "مذاکرات اور  امن کی فتح" ہے ۔ اس نے دنیا کو زمینی حقائق  کی روشنی میں یہ بتایا ہے کہ  طاقت مسائل کو حل نہیں کر سکتی ، بات چیت ہی واحد راستہ ہے۔