امریکہ ایک بار پھر ٹک ٹاک پر اپنا سیاہ ہاتھ ڈال رہا ہے۔ حال ہی میں وائٹ ہاؤس نے امریکی وفاقی حکومتی اداروں کو ایک میمورنڈم جاری کیا ، جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ 30 دن کے اندر تمام سرکاری ڈیوائسز سے ٹک ٹاک ایپ کو ہٹا دیا جائے۔اُدھر امریکی ایوان نمائندگان کی خارجہ امور کی کمیٹی نے یکم تاریخ کو امریکی صدر جو بائیڈن کو ٹک ٹاک پر پابندی عائد کرنے کا اختیار دینے کے لیے ایک بل کی منظوری بھی دی ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب امریکہ نے ٹک ٹاک کو دبایا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے دوران بھی ٹک ٹاک کو کئی مرتبہ محدودکرنے اور دبانے کی کوششیں کی گئی تھیں ۔اس مقصد کی خاطر امریکہ نے "قومی سلامتی" کے لئے نام نہاد خطرہ کا بہانہ تراشا ہے. کیا چینی کمپنی بائٹ ڈانس کی تیار کردہ ایک مقبول موبائل ایپ واقعی امریکی قومی سلامتی کے لئے خطرہ ہے؟
امریکی حکومت کے سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر بائٹ ڈانس نے ٹرمپ انتظامیہ کے دوران اگست 2020 ہی میں ٹک ٹاک کے امریکی کاروبار کو فروخت کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔ دوسری جانب امریکی حکومت کے تقاضوں کے مطابق ٹک ٹاک کا ڈیٹا بیس امریکہ میں قائم کیا گیا جس پر چینی قوانین لاگو نہیں ہوتے ہیں۔علاوہ ازیں، ٹک ٹاک اپنے مواد کے الگورتھم کوڈ کو بھی ظاہر کرنے کے لئے تیار ہے اور چین میں کام کرنے والے ماڈریٹرز غیر ملکی مواد کی نگرانی نہیں کر سکتے ہیں ، تاکہ یہ ثابت کیا جاسکے کہ امریکی صارفین کے رازداری کے حقوق کی خلاف ورزی ناممکن ہے۔
سی آئی اے کے تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ چینی حکومت کو ٹک ٹاک صارفین کے ڈیٹا تک رسائی حاصل ہے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران ٹک ٹاک کی جانب سے امریکی حکومت کے تمام تر تقاضے پورا کرنےکے باجود بھی امریکہ کا بدستور یہ دعویٰ ہے کہ یہ ایپ "قومی سلامتی کے لیے خطرہ" ہے ، جو ظاہر کرتا ہےکہ سیکورٹی محض ایک بہانہ بن چکا ہے.
یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے امریکی صارفین کے لیے ٹک ٹاک کو چھوڑنا کیوں اس قدر مشکل ہے ؟
2018 کے بعد سے ٹک ٹاک اپنی منفرد مصنوعات اور خدمات کی بدولت امریکی مارکیٹ میں تیزی سے مقبول رہی ہے اور کئی سالوں تک بڑے ایپ اسٹورز کی ڈاؤن لوڈ فہرست میں پہلے نمبر پر رہی ہے۔ یو ایس اے ٹوڈے نے یکم مارچ کو ٹک ٹاک کے ترجمان کے حوالے سے بتایا کہ ہر ماہ 100 ملین سے زائد امریکی ٹک ٹاک کا استعمال کرتے ہیں۔ پیو ریسرچ سینٹر کے مطابق 13 سے 17 سال کی عمر کے 67 فیصد امریکی نوجوان ٹک ٹاک استعمال کرتے ہیں۔ 30 سال سے کم عمر نوجوان صارفین میں ٹک ٹاک کے استعمال کا تناسب انسٹاگرام، ٹوئٹر اور یوٹیوب جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
اعدادو شمار کے مطابق 2022 میں ٹک ٹاک کی اشتہاری آمدنی 11 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی، جو بہت سے ٹاپ ٹک ٹاکرز کے لیے آمدنی کا اہم ذریعہ بن گئی ہے۔ فیس بک نے 2018 میں ٹک ٹاک کے مقابلے میں "لاسو" اور پھر "ریلز" لانچ کیے تھے، جو دونوں ناکام رہے تھے۔ فیس بک کے بانی مارک زکربرگ نے ذاتی طور پر ٹک ٹاک کے خلاف کریک ڈاؤن کے لیے امریکی حکومت سے لابنگ کی تھی۔ یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ امریکہ میں کچھ اجارہ دار کاروباری ادارے سرکاری محکموں کی مدد سے بہانے تلاش کرتے ہوئے اپنے حریفوں کو دباتے ہیں اور یہ اُن کے مقبول آپشنز میں سے ایک ہے۔
دوسری جانب ٹوئٹر کے سی ای او ایلن مسک نے 27 دسمبر 2022 کو کھلم کھلا کہا تھا کہ تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کومواد سنسر کرنے کے لیے امریکی حکومت کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔امریکہ میں رائے عامہ کی سمت حکومتی مداخلت سے متاثر ہوتی ہے اور حکومت کے لئے تمام ناسازگار بیانات پر پابندیاں عائد ہیں، مثلا گوگل اکثر بعض صفحات کو غائب کر دیتا ہے۔
ابھی حال ہی میں تین فروری کو امریکی ریاست اوہائیو میں کیمیکلز لیک ہونے کے واقعے کے بعد آئندہ دس دنوں میں امریکی مین اسٹریم میڈیا پر اس کی کوریج نہ ہونے کے برابر تھی اور جو کچھ کوریج ہوئی، وہ بھی جامع نہیں تھی۔ ٹک ٹاک جیسے ویڈیو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی بدولت اس واقعے کی تفصیلات منظر عام پر لائی گئیں اور شہریوں کے سامنے حقائق پیش کیے گئے۔ ٹک ٹاک کی وجہ سے لوگوں کو مین اسٹریم میڈیا کے مقابلے میں ایک مختلف پہلو نظر آتا ہے جس میں بہت سا ایسا مواد بھی ملتا ہے جو سیاستدانوں کی خواہشات کے برعکس ہے ۔ رائے عامہ پر کنٹرول کھو دینے کے بعد ، فطری طور پر متعلقہ انتظامیہ اسے برداشت نہیں کر سکتی ہے۔
ٹک ٹاک پر پابندی بلاشبہ سیکیورٹی معاملے کے بجائے ایک سیاسی مسئلہ ہے جو امریکہ میں کاروباری تحفظ اور اظہار رائے کی آزادی میں "دوہرے معیار" کا ایک اور ثبوت ہے۔ اپریل 2022 میں ، امریکی حکومت نے 50 سے زیادہ ممالک اور علاقوں کے ساتھ جو "انٹرنیٹ کا مستقبل" نامی اعلامیہ جاری کیا ، اس میں انٹرنیٹ کے "کھلے پن ، آزادی اور عالمگیریت" کی حمایت کرنے کا عہد کیا گیا تھا۔ لیکن ٹک ٹاک کے خلاف کارروائی امریکی قیادت میں اس اعلامیے کے منہ پر طمانچہ ہے، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امریکہ کا نام نہاد "کھلاپن، آزادی اور عالمگیریت " امریکی بالادستی اورمفادات پر مبنی ہے۔جب مسابقتی برتری کھو جاتی ہے تو ، آپ "قومی سلامتی کے لئے خطرہ" بن جاتے ہیں۔