ایسا باغ جس میں کوئی پودا نہیں تھا ،وہاں اب کیا اگ گیا؟

2023/03/15 15:34:31
شیئر:

سال دو ہزار بیس میں چین کے شہر شین زن میں ایک باغ کو لوگوں کے لیے کھولا گیا  جس میں ایک بھی درخت یا پودا  نہیں  تھا۔ آخراس قسم کے باغ کا   مقصد کیا  تھا ؟اور کون یہاں سیروتفریح کرنے آتا؟پھر  خالی زمین دیکھ کر لوگ یہ پوچھے بغیر بھی نہیں رہ سکے کہ بھلا اس باغ میں کیا  خاص چیز   ہو گی ؟

سماجی ترقی اور  زندگی کے لیے عوام کی ضروریات  میں کھانے کے علاوہ خوبصورت رہائشی ماحول بھی شامل ہےاور یہی حالیہ برسوں میں چین کا اعلی معیار کی ترقی کو فروغ دینے کا سب سے اہم مقصد ہے۔ اعلی معیار کی ترقی عوام کو مزید سبز رہائشی ماحول فراہم کرتی ہے ،دوسری طرف عوام کا ماحول دوست شعوربھی اعلی معیار کی ترقی کے لیے مضبوط حمایت کرتا ہے۔ماحولیاتی بیداری پیدا کرنے کے عمل میں، قدرت کے ساتھ براہ راست رابطہ اہم ہے اور شہروں میں رہنے والوں کے لیے باغ ہی قدرت سے رابطے کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ باغ میں   ورزش کی مکمل سہولیات اور   لینڈ اسکیپ پودوں کا مکمل ڈیزائن  موجود ہوتا ہے لیکن شین زن کے اس باغ میں ڈیزائنر نے ایک جرات مندانہ کوشش کی اور ایک بھی درخت یا پودا نہیں لگایا۔تاہم وہ پورے شین زن سے مختلف اقسام کی مٹی لائے۔کسی نے  بھی نہیں سوچا تھا کہ اس خالی زمین پر کیا  معجزہ ہو گا؟ ۔مختلف نباتات کے بیج ہوا،پرندوں نیز کیڑوں کے ساتھ یہاں آئے اور  مٹی میں جذب ہو گئے ۔چھ ماہ بعد یہ باغ سبز پودوں سے بھر گیا ۔مزید یہ کہ  قومی سطح پر تحفظ  پانے والے جنگلی جانور بھی  یہاں نظر آنے لگے ۔اس  طرح ،ایک چھوٹا  لیکن مکمل حیاتیاتی نظام یہاں تشکیل  پا گیا ۔

اس سے  زیادہ قابل توجہ  بات یہ ہے کہ پودوں کے بڑھنے اور جانوروں کے آنے کا انتظار کرتے ہوئے ، قدرت کے بارے میں لوگوں کا تجسس بھی بڑھتا  رہتا ہے اور ماحولیاتی تحفظ کے بارے میں سوچ بھی مزید گہری ہو تی  جاتی ہے۔مثلاً یہاں  لوگ مٹی سے متعلق معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔یہ باغ تعمیراتی کچرے کا ڈھیرتھا۔ڈیزائنر کا سب سے اہم کام آنے والے بیجوں کے لیے مٹی تیار کرنا تھا۔ڈیزائنر پھانگ وے نے بتایا کہ مٹی کافی قیمتی ہے ،تیس تا پچاس سینٹی میٹر تہ والی مٹی کی تشکیل میں تین ہزار سے بیس ہزار سال لگتے  ہیں ۔حقیقی معنوں میں مٹی نامیاتی ہوتی ہے جو پودوں اور کیڑے  مکوڑوں کی مشترکہ کارکردگی کا نتیجہ ہوتی ہے ۔صرف ایک سینٹی میٹر والی مٹی کی تشکیل کے لیے بھی چار سو سال درکار ہوتے ہیں۔یہاں مختلف نباتاتی انواع کی مسابقت کے حوالے سے بھی پتہ چلے گا،مختلف راستے سے یہاں آنے والے بیجوں میں مقامی اور غیرنباتاتی انواع دونوں شامل ہیں۔لوگ دیکھ سکتے ہیں کہ غیر نباتاتی انواع بیج  کے  بڑھنے کی رفتار عام طور پر مقامی نباتاتی انواع سے  نسبتاً تیز ہوتی ہے،لیکن مقامی پودے بھی  مضبوط جڑیں پکڑے ہوئے ہیں۔

انیسویں بین الاقوامی نباتاتی کانگریس کی یاد میں قائم کیے جانے والے اس باغ میں شین زن حکومت نےایک سائنسی تجرباتی منصوبہ بھی شروع کیا جس کے تحت این جی او ز اورنوجوان شائقین اس زمین پر جانوروں اور پودوں کا مسلسل مشاہدہ کر سکتے ہیں۔یہ منصوبہ سال 2121 تک جاری رہے گا اور سو سا لہ  یہ منصوبہ حیاتیاتی تنوع کے تحفظ میں چینیوں کے عزم اور آنے والی نسلوں کے لیے قیمتی قدرتی وراثت  دینے کی ذمہ داری کا عکاس ہے۔