وبا کی روک تھام اور کنٹرول میں چین ہمیشہ عوام کو اولین اہمیت دینے پر قائم ہے

2023/03/20 15:25:56
شیئر:

نوول کورونا  وائرس کی وبا  چوتھے سال میں داخل ہو چکی  ہے ۔ حکومت کی درست قیادت اور پورے ملک کے عوام کی مشترکہ کوششوں سے   چین کی وبا کی روک تھام اور کنٹرول معمول کے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ گزشتہ تین سالوں کے دوران چین نے وبا  پر قابو پاتے ہوئے معاشی و سماجی ترقی کو موثر طریقے سے مربوط کیا، جس کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ اس نے انسانی تہذیب کی تاریخ میں ایک ایسا معجزہ پیدا کیا ہے جس میں ایک بڑی آبادی والا ملک وبائی صورتحال سے کامیابی سے نکل آیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی چین نے وبا کی روک تھام اور کنٹرول کی موثر کامیابیوں، وسیع بین الاقوامی انسداد وبا تعاون اور مستحکم معاشی بحالی کے ساتھ دنیا میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

اوائل میں جب چین میں یہ وبا پھیلی تو نامعلوم خطرناک وائرس کا سامنا کرتے ہوئے چینی حکومت نے لوگوں کی زندگیوں اور صحت کے تحفظ کو اولین ترجیح دی، "شہر کو لاک ڈاؤن" کرنے کا فیصلہ کیا،  متاثرہ شہر ووہان کی مدد کے لئے ملک بھر  کے طبی عملے  کو متحرک کیا، فوری طور پر دو پروفیشنل اسپتال اور بڑی تعداد میں عارضی اسپتال قائم کیے۔  دو ماہ سے زائد کی کوششوں کے بعد ووہان نے "ان بلاکنگ" حاصل کی اور اس کی معیشت اور معاشرہ آہستہ آہستہ مستحکم ہوا اور معمول پر آ گیا۔

اُس دوران جب دنیا بھر میں وبا کا پھیلاو جاری تھا اور وائرس میں مسلسل تغیرات سامنے آ رہے تھے تو چینی حکومت نے وبائی صورتحال میں تبدیلیوں کے عین مطابق مسلسل سائنسی پیمانے پر احتیاط اور موثر طورپر  اپنے اقدامات کو بہتر بنایا، وبا کے بڑے پیمانے پر پھیلاؤ کو مؤثر طریقے سے روکا، اور اس کے ساتھ  ہی  وسیع پیمانے پر ویکسینیشن کی،یوں چین میں سنگین امراض، اموات اور انفیکشن کی تعداد کو مؤثر  طور پر کم کیا گیا، اور لوگوں کی زندگیوں اور صحت کو بڑی حد تک تحفظ فراہم کیاگیا۔ امریکہ کی جان ہاپکنز یونیورسٹی کے اعداد و شمار کے مطابق 9 دسمبر 2022 تک امریکہ میں کورونا وائرس سے ہونے والی اموات کی تعداد 10 لاکھ سے زائد  تک جا پہنچی جبکہ  چین میں یہ تعداد  16 ہزار  رہی ہے ۔ چین میں اموات کی مجموعی تعداد امریکہ میں مجموعی اموات کا محض 1.49 فیصد ہے۔ دیکھا جا سکتا ہے کہ دنیا کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک کی حیثیت سے امریکہ متاثرہ مریضوں اور اموات کی تعداد کے لحاظ سے دنیا میں سرفہرست ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ  صحت عامہ کے بحران کے سامنے، امریکہ کی مختلف سیاسی جماعتوں ، وفاقی اور   مقامی ریاستوں کے درمیان  ہم آہنگی نہیں ہے، ہر ایک اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کو دیکھ رہا ہے،  اپنے فوائد اور نقصانات کا حساب لگا رہاہے،  اور صرف لوگوں کی زندگیوں اور صحت کے تحفظ کو نظر انداز کیا جا رہا ہے ، لہذا وبا کے خلاف جنگ  یقیناً ناکام  ہو  رہی ہے ۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ وبا کے خلاف یہ جنگ دراصل کسی بھی حکومت کی اہلیت، قومی صلاحیت اور کسی ملک کے مخصوص ادارہ جاتی میکانزم کا امتحان ہے۔ہر کوئی  واضح دیکھ سکتا ہے کہ نتائج کیسے ہیں۔

جونہی اومیکرون متغیر  وائرس سے شدید امراض اور اموات میں نمایاں کمی  آئی  تو  چین نے بروقت اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وبا کی روک تھام کی توجہ "انفیکشن کی روک تھام" سے "صحت کے تحفظ  اور شدید امراض کی روک تھام" پر مرکوز کردی، جس سے نئی صورتحال کے تحت مستحکم معاشی اور سماجی ترقی کو فروغ دینے کے لئے حالات پیدا ہوئے۔ رواں سال کے آغاز میں چینی شہریوں نے بیرون ملک سفر دوبارہ شروع کیا اور 15 مارچ سے ویزا اور انٹری پالیسیوں کو ایڈجسٹ کیا تاکہ چینی اور غیر ملکی افراد کے تبادلے کو آسان بنایا جا سکے۔ ایسے غیر ملکی جنہیں 28 مارچ 2020 سے قبل ویزے جاری کیے گئے تھے اور  ویزا قانونی مدت کے اندر  ہے ،وہ چین آ سکتے ہیں ۔اس کے علاوہ   ہائی نان  میں ویزا فری انٹری، شنگھائی میں کروز جہازوں کے لیے ویزا فری، ہانگ کانگ اور مکاؤ کے غیر ملکیوں کے لیے گوانگ ڈونگ میں ویزا فری انٹری اور آسیان ٹور گروپس کے لیے  صوبہ گوانگسی کے گوئی لین میں ویزا فری انٹری بحال ہو گئی ہے ۔

رواں سال جنوری کے اواخر میں  چائنا میڈیا گروپ کے سی جی ٹی این تھنک ٹینک اور چائنیز  رین مین یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل گورننس اینڈ پبلک اوپینین ایکولوجی کی جانب سے کئے جانے والے ایک عالمی سروے سے پتہ چلا کہ 88.1 فیصد عالمی جواب دہندگان نے گزشتہ تین سالوں میں چین کی وبا کی روک تھام کی کامیابیوں کی تعریف کی اور 71.6 فیصد افراد  نےچین کی انسداد وبا پالیسیوں  میں متحرک ایڈجسٹمنٹ کی مکمل توثیق کی ہے ۔ نوول  کورونا وبا کے پھیلنے کے بعد سے، چین نے ہمیشہ لوگوں کو اولین حیثیت دینے اور زندگی کو  اولین اہمیت  دینے  کے تصور پر عمل کیا ہے، صحت عامہ کے مضبوط  اقدامات اختیار  کئے ہیں ، شدید امراض اور اموات کو کم کیا ہے، عالمی وبا کی روک تھام کے دباؤ کو کم کیا ہے، اور عالمی برادری کو اس وبا سے لڑنے کے لئے قیمتی مہلت فراہم کی ہے، اور  عالمی

برادری کے ساتھ  اپنے قیمتی تجربات شیئر  کئے ہیں ۔