دریا کے تحفظ کے دیوتا ، پتھر سے بنائے گئے بدھ کے مجسمے ، سونے کے ورقوں سے مزین ٹاور کی شکل کا کنٹینر اور دیدہ زیب بالیاں وغیرہ وغیرہ ، میں ہر ایک خوبصورت تاریخی ورثے کے سامنے کھڑی ہوئی اور انہیں غور سے دیکھا ، گندھارا ثقافت اور آرٹ کے مختلف انداز نے مجھے بہت متاثر کیا۔ چین کے پیلس میوزیم اور پاکستان کے قومی ورثہ اور ثقافتی شعبے کے بیورو برائے آرکیالوجی اور میوزیم کے اشتراک سے منعقد ہونے والی " گندھارا آرٹ ایگزیبیشن" بیجنگ کے شہر ممنوعہ کے وین ہوا ہال میں منعقد ہو رہی ہے ۔ نمائش دیکھتے ہوئے مجھے یہ احساس ہوا کہ چین اور پاکستان کے درمیان ثقافتی تعلقات اور تبادلوں کی تاریخ بہت زیادہ طویل ہے، اور پاکستان کے ساتھ میری جذباتی وابستگی مزید گہری ہوگئی ۔
معلوم ہوا ہے کہ اس بار مجموعی طور پر 203 ثقافتی آثار (سیٹ) کی نمائش کی جا رہی ہے ۔ ان میں پاکستان کے دوسری صدی قبل مسیح سے لے کر دسویں صدی عیسوی تک کے آثار قدیمہ کی کھدائی سےملنے والے 173ثقافتی آثار (سیٹ) اور پیلس میوزیم میں محفوظ 30 اشیا (سیٹ) ، جن میں سے زیادہ تر قدیم گندھارا خطے سے قدیم شاہراہ ریشم پر سوات اور کشمیر کے راستے چین کے مغربی تبت میں داخل ہوئے تھے ، شامل ہیں ۔ گندھارا قدیم شاہراہ ریشم پر نقل و حمل کا ایک مرکز تھا ، جہاں یونان ، فارس اور ہندوستان جیسی متنوع تہذیبیں موجود رہیں ، اور متعدد ثقافتوں کے ملاپ سے رنگین تہذیب تشکیل پائی ۔
چین اور پاکستان دونوں شاہراہ ریشم پر موجود قدیم تہذیبیں ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی اور فنکارانہ تبادلوں کی تاریخ کو دیرینہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ پاکستان آنے والے تمام چینی جانتے ہیں کہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے تقریبا 50 کلومیٹر کے فاصلے پرایک مشہور قدیم شہر ہے جس کا نام ٹیکسلا ہے اور اس کی تاریخ 2500 سال سے زائد ہے۔ ٹیکسلا چھٹی صدی قبل مسیح میں گندھارا سلطنت کا دارالحکومت تھا اور چین کے مشہور بھکشو فا ژیان اور ژوان زانگ اور دیگر راہب یہاں آئے تھے۔ اگر چہ آج آپ پرانے زمانے کے اس شہر کی خوبصورتی اور پررونق مناظر نہیں دیکھ سکتے ، لیکن اس قدیم شہر کے کھنڈرات لوگوں کے تخیل کے لئے کافی کچھ چھوڑتے ہیں ، اور یہ چینی سیاحوں کے آنے کے لیے ایک لازمی جگہ ہے۔ تاریخی دستاویزات کے مطابق گندھارا نے چین میں بدھ مت کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کیا۔ چینی تہذیب ہمیشہ سے ایک کھلی تہذیب رہی ہے ، جو غیر ملکی ثقافتی عناصر کے مسلسل اپنی ثقافت میں انضمام کی صلاحیت رکھتی ہے۔
چین اور پاکستان کے درمیان دوستی ایک طویل عرصے سے مضبوط رہی ہے اور دوطرفہ تعلقات کی مستحکم ترقی نہ صرف دونوں ممالک کی حکومتوں کے درمیان سیاسی باہمی اعتماد، اقتصادی اور تجارتی تعلقات کی مضبوطی وغیرہ میں ظاہر ہوتی ہے بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ بھائی جیسی عوامی گہری دوستی بھی شامل ہے ۔ دونوں ممالک کے درمیان زیادہ سے زیادہ عوامی تبادلوں جیسے سیاحت، مختلف نمائشوں، پتنگ بازی، پینٹنگ اور فوڈ فیسٹیول وغیرہ جیسی سرگرمیوں سے باہمی دوستی اور تفہیم میں مزید اضافہ ہو رہا ہے ایسی دوستی یقیناً نسل درنسل جاری رھے گی ۔
مختلف قومیتوں، مختلف ممالک اور خطوں کی اپنی تہذیبیں ہیں۔ چینی صدر شی جن پھنگ نے حال ہی میں کمیونسٹ پارٹی آف چائنا اور دنیا بھر کی سیاسی جماعتوں کے درمیان اعلیٰ سطحی مکالمے میں گلوبل سولائزیشن انیشی ایٹو پیش کرتے ہوئے عالمی تہذیبوں کے درمیان تبادلوں اور باہمی استفادے کے لیے دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے کی چین کی مخلصانہ خواہش کا اظہار کیا۔ قدیم زمانے میں گندھارا ثقافت نے قدیم شاہراہ ریشم اور اس سے وابستہ ممالک کے مابین مسلسل تبادلوں اور ایک دوسرے سے سیکھنے کے ذریعے بے مثال قوت حیات اور تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے ، اور ایشیائی تہذیب کے پھیلاؤ کی تاریخ پر دور رس اثرات مرتب کیے ہیں۔
آج گلوبل سولائزیشن انیشی ایٹو کے تحت اور "بیلٹ اینڈ روڈ" کے نئے سلک روڈ کے ساتھ ساتھ مختلف تہذیبوں کے حامل ممالک کے درمیان تعلقات اور عوام کے درمیان تبادلے یقینی طور پر قریبی ہو جائیں گے جس سے بلاشبہ انسانی معاشرے کوجدید کاری کے عمل میں تمام ممالک کے عوام کے درمیان باہمی افہام و تفہیم، دوستی اور مشترکہ ترقی کو فروغ دینے میں مدد ملے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ عالمی تہذیب کے باغات رنگا رنگی سے بھرپور ہوتے جائیں گے اور یہ کیسی خوبصورت اور بہتر دنیا ہوگی، لوگ کیسے ایسی دنیا کی خواہش نہیں رکھتے ہیں ۔