چینی اور غیرملکی ماہرین کا تبت میں تعلیم کی ترقی پر تبادلہ خیال

2023/03/31 10:44:41
شیئر:

بیجنگ میں منعقدہ ایک حالیہ سیمینار میں 60 سے زائد چینی اور غیر ملکی ماہرین نے تبت میں تعلیم کی ترقی پر تبادلہ خیال کیا۔ بیجنگ کی سینٹرل یونیورسٹی فار نیشنلٹیز میں تبتی پروفیسر شیراب نیما نے کہا کہ 50 کی دہائی میں تبت کی پرامن آزادی سے قبل تبت میں عام لوگوں کو تعلیم کا کوئی حق نہیں تھا اور نوجوان اور درمیانی عمر کے لوگوں میں ناخواندگی کی شرح 95 فیصد تک تھی۔ پچھلی صدی کی ساٹھ کی دہائی میں جمہوری اصلاحات کے بعد تبت میں غلامی کا خاتمہ کر دیا گیا اور عام تبتی، جو زرعی حقوق سے محروم اور غلام ہوا کرتے تھےان کو تعلیم کے مواقع اور حق دیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ان تعلیمی مواقعوں سےفائدہ اٹھانے والوں میں سے ایک ہیں۔ 70 کی دہائی کے آغاز میں ، انہوں نے پرائمری ، مڈل ، گریجویشن اور یونیورسٹی تعلیم حاصل کی اور تبتی تاریخ کے اسکالر بن گئے۔ 

جاپان کی کومازاوا یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اور سنسکرت کا مطالعہ کرنے والے کازو کانو نے نشاندہی کی کہ تبت میں موجودہ سنسکرت رسم الخط سرحد پار ثقافتی تبادلے کی تاریخی حقیقت کی عکاسی کرتا ہے۔ آسٹریلیا کی گریفتھ یونیورسٹی کے اعزازی پروفیسر کولن میکراس نے بتایا کہ قدیم تبت میں زیادہ تر مرد تعلیم یافتہ تھے۔ تبت کی پرامن آزادی کے بعد ، چین نے تبت میں جلد از جلد جدید قومیتی تعلیمی نظام قائم کرنے ، تبتی عوام کے سائنسی اور ثقافتی معیار کو جامع طور پر بہتر بنانے اور تبت میں رہنے والے تمام قومیتیوں کے لوگوں کو جدید تعلیم حاصل کرنے کے بنیادی حقوق کی ضمانت دینے کو ترجیحی حیثیت دی ہے۔