چین اور برازیل، تقریبا 18،800 کلومیٹر کے فاصلے پر،بالترتیب مشرقی اور مغربی نصف
کرہ میں سب سے بڑے ترقی پذیر ممالک ہیں. برازیل کے صدرلوئیز اناسیو لولا ڈی سلوا
12 تاریخ کو اپنے چین کے دورے کا آغاز کر ہے ہیں۔یوں سمندروں سے الگ ہونے والی دو
ابھرتی ہوئی طاقتیں ایک بار پھر ہاتھ ملائیں گی۔
چین 2009 میں برازیل کا سب سے
بڑا تجارتی شراکت دار بن گیا تھا اور اس نےمسلسل 14 سال تک اس پوزیشن کو برقرار
رکھا ہے۔ برازیل لاطینی امریکہ کا پہلا ملک ہے جس کی چین کے ساتھ تجارت 100 ارب
ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے۔
صدر لولا ڈی سلوا کے دورے میں اقتصادی امور پر توجہ
مرکوز کی جائےگی ۔ فی الحال، برازیل کو وبا کے بعد بحالی کے مشکل کام کا سامنا
ہے، اور برازیل "دوبارہ صنعت کاری" کو فروغ دینے کے لئے پرعزم ہے. چین اعلی معیار
کی ترقی اور اعلی سطح کے کھلے پن کو فروغ دے رہا ہے ، جو برازیل سمیت دنیا کے تمام
ممالک کو جیت جیت کے مواقع فراہم کرے گا۔
پیچیدہ اور بدلتی ہوئی بین الاقوامی
صورتحال کے پیش نظر ،چین اور برازیل ترقی پذیر ممالک کے رہنماؤں کی حیثیت سے
بالادستی اور طاقت کی سیاست کی مخالفت اور حقیقی کثیر الجہتی کی حمایت کرتے ہیں۔
دونوں ممالک نے کثیر الجہتی میکانزم اور بین الاقوامی تنظیموں ،جیسے اقوام متحدہ،
ڈبلیو ٹی او، جی 20 اور برکس میں قریبی تعاون برقرار رکھا ہے، جس نے ترقی پذیر
ممالک کی امن اور ترقی کی آواز کو مضبوط کیا ہے۔ چین روانگی سے قبل صدر لولا ڈی
سلوا نے یوکرین کے بحران کے جواب میں چین کے کردار اور لفظ "امن" کا بارہا ذکر
کیا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ کسی کو تو امن کے بارے میں بات کرنے کی شروعات
کرنا ہو گی کیونکہ امریکہ اور یورپ امن کے بارے میں بات نہیں کر رہے ۔
مشرقی
اور مغربی نصف کرہ میں سب سے بڑے ترقی پذیر ممالک کی حیثیت سے ، چین اور برازیل کے
تعلقات کی ترقی نہ صرف دونوں اطراف بلکہ دنیا کے لئے بھی فائدہ مند ہے۔ یہ
یقین ظاہر کیا جا رہاہے کہ دونوں رہنماؤں کی قیادت میں چین اور برازیل کے درمیان
مختلف شعبوں میں باہمی فائدے اور دوستانہ تعاون کو آگے بڑھایا جائے گا اور خطے اور
دنیا کے استحکام اور خوشحالی کے فروغ میں ایک نیا کردار ادا کیا جائے گا ۔