حال ہی میں امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے جنوبی کوریا کے سیاسی رہنماؤں پر نظر رکھنے کی خبر سامنے آئی جس پر عالمی برادری بالخصوص امریکی اتحادیوں کی جانب سے شدید تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ جنوبی کوریا کے اخبار 'کورین نیشن' نے 11 اپریل کو اپنے مضمون میں کہا کہ امریکہ 40 سال سے زائد عرصے سے جنوبی کوریا کے ایوان صدر کی نگرانی کر رہا ہے اور یہ ایک 'کھلا راز' ہے۔
مختلف ممالک کی میڈیا رپورٹس میں دنیا پر امریکی نگرانی کی سیاہ تاریخ موجود ہے۔امریکی قومی سلامتی ایجنسی 2007 سے ایک خفیہ الیکٹرانک نگرانی پروگرام –" پروجیکٹ پرزم" پر عمل پیرا ہے ، اور 2013 میں امریکی قومی سلامتی ایجنسی کے سابق ملازم ایڈورڈ سنوڈن کی جانب سے افشاں کردہ دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ پروجیکٹ پرزم نے ایپل ، یوٹیوب ، اسکائپ ، فیس بک ، گوگل اور دیگر ویب سائٹس کے مرکزی سرورز تک رسائی حاصل کی تاکہ انٹیلی جنس اور ڈیٹا اکٹھا کیا جاسکے۔ سنہ 2008 میں امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی نے اقوام متحدہ کے اس وقت کے سیکریٹری جنرل بان کی مون اور اس وقت کی جرمن چانسلر انجیلا میرکل کے درمیان ہونے والی بات چیت کی بھی نگرانی کی ۔ 2012 اور 2014 میں این ایس اے نے ڈنمارک کی ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی (ایف ای) کے تعاون سے جرمنی، فرانس، سویڈن، ناروے اور دیگر ممالک کی سیاسی شخصیات کی جاسوسی کی اور جمع کی گئی انٹیلی جنس کا دائرہ کار قومی سلامتی اور انسداد دہشت گردی کی ضروریات سے کہیں زیادہ اور وسیع تھا۔ ان واقعات نے اس وقت متعلقہ ممالک میں شدید رد عمل کو جنم دیا تھا۔ یورپی رہنماؤں نے امریکی" وائر ٹیپنگ" کی مذمت کی اور امریکہ سے جامع وضاحت کا مطالبہ کیا گیا جس کا نتیجہ صرف یہ ہوا کہ وائٹ ہاؤس نے سطحی طور پر اپنے اتحادیوں کی نگرانی بند کرنے اور اس بات کو یقینی بنانے کا وعدہ کیا کہ نگرانی کی یہ صورتحال دوبارہ نہیں ہو گی لیکن امریکہ پھر بھی اپنے راستے پر قائم رہا اور "کھلا راز" کھلے عام خفیہ رہا ۔
اس طرح کی غنڈہ گردی کا سبب" سب سے پہلے امریکہ" کی تسلط پسندانہ ذہنیت اور غرور کے علاوہ کچھ نہیں ۔ کچھ عرصہ پہلے امریکہ نے چین کے موسمی مشاہدے کے غبارے کے واقعے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا تھا جو غیر متوقع وجوہات کی بنا پر امریکہ کی فضائی حدود میں داخل ہوا تھا۔امریکہ کا رد عمل ایسا تھا جیسے وہ ایک معصوم بچہ ہو جس کے ساتھ ظلم کیا گیا ہو اور لوگ اسے دیکھ کر واقعی "دل میں درد" محسوس کر یں ۔ تاہم اگر امریکہ کی جانب سے چین، روس اور برطانیہ جیسے درجنوں ممالک اور خطوں میں کئی دہائیوں سے کیے جانے والے "ٹیلی اسکرین آپریشن" کے بارے میں سوچا جائے ، تو لوگ واقعی لیونارڈو ڈی کیپریو اور جونی ڈیپ سے زیادہ شاندار اور حیرت انگیز امریکی اداکاری کی تعریف کیے بنا نہیں رہ پائیں گے ۔ جنوبی کوریا کے خلاف امریکی " انٹیلی جنس " جو ایک بار پھر بے نقاب ہو گئی ہے، ظاہر کرتی ہے کہ امریکہ کو اپنے اتحادیوں کے جذبات اور وقار کی پرواہ نہیں ہے ۔یوں اس کے اتحادی اب آہستہ آہستہ اپنا صبر کھو چکے ہیں۔ چند روز قبل فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے واضح کیا تھا کہ یورپ کو امریکہ پر اپنا انحصار کم کرنا چاہیے اور اسٹریٹجک خودمختاری پر غور کرنا چاہیے۔ اس بار میکرون نے یورپ کی حیثیت کے بارے میں "امریکہ کے پیروکار، اور " ہم جاگیردار نہیں بنیں گے" جیسے جملوں کا استعمال کیا۔
درحقیقت امریکہ کی ''کیرٹ اینڈ اسٹک'' کی پالیسی میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں آئی اور اس حوالے سے وہ مخالفین اور اتحادیوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک روا رکھتا ہے ۔ امریکہ نے ہمیشہ مساوات اور آزادی کا راگ الاپا ہے، تاہم " انٹیلی جنس گیٹ"واقعی ایک ایسا دروازہ ہے،جس میں داخل ہونے پر امریکی غنڈہ گردی آزاد دکھائی دیتی ہے اور دروازے کے باہر اتحادیوں سے ذلت آمیز مساوات نظر آتی ہے .
نیکی اور اخلاقیات کے راستے پر چلیں، تو دور رہنے والے لوگ بھی نزدیک آتے ہیں اور اگر گمراہ گن شیطانی راستہ اپنایا جائے تو دوست بھی دور ہو جاتے ہیں ۔ امریکہ ،بالادستی کے جنون میں مبتلا ہے، یہاں تک کہ اپنے نام نہاد اتحادیوں کی بھی پیٹھ میں خنجر گھونپتا ہے لیکن یہ رویہ لامحالہ ایک دن اسے تنہا کر دے گا ۔ امریکہ کے اتحادیوں کو اس مشہور کہاوت کو سنجیدگی سے لینا چاہیے کہ " امریکہ کی دشمنی خطرناک ہے اور امریکہ کی دوستی مہلک "۔
کہا جاتا ہےکہ "کوئی چیز اگر کسی شخص کو قائل کر سکتی ہے تو وہ دلیل نہیں بلکہ دیوار ہو تی ہے"، اگرچہ یہ کہاوت دل دہلا دینے والی ہے، لیکن یہ غیر معقول نہیں. امریکہ کو چاہیے کہ وہ تسلط پسندانہ انحصار کے سنگین نتائج کو جتنا جلد ہو سکے سمجھ لے،جب کہ اس کے اتحادیوں کو بھی جلد از جلد اپنے ذہنوں کو امریکی کنٹرول سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہیے کیوں کہ بعد کے پچھتاوے سے بہتر ہے کہ سانحے کے ہونے کا انتظار ہی نہ کیا جائے ۔