امریکی حکام حال ہی میں ارجنٹائن کے دورے میں مصروف ہیں۔ سب سے پہلے،
امریکی ریپبلکن سینیٹر کینن نے اس ماہ کے اوائل میں ایک وفد کی قیادت میں ارجنٹائن
کا دورہ کیا اور چین کے ساتھ ارجنٹینا کے تعاون کے منصوبوں پر "تشویش" کا اظہار
کیا۔ اس کے بعد امریکی نیوکلیئر ریگولیٹری کمیشن کے چیئرمین کرسٹوفر ہینسن نے دورہ
کیا اور دعویٰ کیا کہ ارجنٹائن اور چین کے درمیان جوہری توانائی کے شعبے میں تعاون
خطرناک اور 'ناگوار' ہے۔پھر حالیہ دنوں سدرن کمانڈ کے کمانڈر رچرڈسن اور نائب وزیر
خارجہ وینڈی شرمین نے بھی اپنے دورہ ارجنٹائن کے دوران چین کے بارے میں بات
کی۔
ارجنٹائن کےذرائع ابلاغ کے خیال میں حالیہ برسوں میں چین اور ارجنٹائن کے
درمیان تعاون فروغ پایا ہے۔فروری میں ارجنٹائن دی بیلٹ اینڈ روڈ میں شامل پہلی
لاطینی امریکی ملک بن گیا۔یہ ترقی پذیر ممالک کے مابین حقیقت پسندانہ تعاون ہے،جب
کہ امریکہ کی نظر میں یہ تعاون امریکہ کے مفادات اور اس کے تسلط کے لیے ایک چیلنج
ہے ۔اس لیے امریکہ چین اور لاطینی امریکہ کے درمیان تعاون میں گڑبڑ پیدا کرنے
کی بھرپور کوشش کررہا ہے۔
لیکن آج کا لاطینی امریکہ ماضی جیسا نہیں
ہے۔اتحاد،تعاون اور ترقی کے لیے لاطینی امریکی ممالک کی خواہش مضبوط ہوتی جا رہی
ہے اور خودمختاری کے لیے ان کا مطالبہ بھی زور پکڑتا جا رہا ہے۔
یاد رہے کہ
انیسویں صدی کے اواخر میں میکسیکو کے سابق صدر پورفیریو ڈیاز نے افسوس کا اظہار
کیا تھا کہ ان کا ملک "گاڈ سے بہت دور اور امریکہ کے بہت قریب ہے"۔لاطینی امریکہ
میں ہونے والے واقعات ارجنٹائن کے میڈیا کے نظریے کو ثابت کر رہے ہیں کہ لاطینی
امریکی ممالک ، " امریکہ کے حد سے زیادہ قریب ہونے " کے نصیب کو بدل سکتے
ہیں۔