اپریل میں چین کے دارالحکومت بیجنگ میں قائم نیشنل بوٹینیکل گارڈن کی سالگرہ منائی جا رہی ہے ۔ یہاں جس درخت کے خوبصورت پھول باغ میں کھلے ہیں اسے "چائنیز ڈوو ٹری"یعنی کبوتر کا درخت کہا جاتا ہے۔اس کے پھول بالکل سفید کبوتر جیسے ہوتے ہیں۔ قدرتی آفات کے دوران بیشتر علاقوں میں یہ پودے معدوم ہو گئے تھے جب کہ صرف چین کے جنوبی علاقے میں ان کی کچھ باقیات رہیں اور یہ"زندہ نباتاتی فوسل" بن گئے۔ اب چین کے شمالی علاقوں میں بھی ان کی دوبارہ افزائش کی جا رہی ہے اور سفید کبوتر کے پھول یہاں بھی کھلنے لگے ہیں۔ نیشنل بوٹینیکل گارڈن میں نباتاتی تحفظ کے تحت اگائے گئے یہ پھول اچھے نتائج فراہم کر رہے ہیں۔
موسم بہار میں کبوتر کے پھولوں کے علاوہ، خزاں میں میٹاسکویا کا جنگل بھی نیشنل بوٹینیکل گارڈن کی ایک منفرد پہچان ہے۔ پچھلی صدی کے چالیس کے عشرے سے قبل دنیا کے بیشتر ماہرینِ نباتات خیال کرتے تھے کہ میٹاسکویا کا کوئی زندہ پودہ دستیاب نہیں ہو سکتا۔ جب کہ بعد میں چین کے جنوب مغرب میں اس کے زندہ پودے پائے گئے۔ آج ، نیشنل بوٹینیکل گارڈن میں شمالی چین کا سب سے بڑا میٹاسکویا کا محفوظ کردہ جنگل موجود ہے۔ موسم خزاں میں ، میٹاسکویا کے پتے ٹھنڈ سے سرخ ہوجاتے ہیں اور نیلے آسمان تلے کسی خوبصورت پینٹنگ جیسا منظر پیش کرتے ہیں۔اب دنیا بھر کے 80 سے زائد ممالک میں میٹاسکویا کاشت کیا جاتا ہے ۔ اس کے نایاب ہونے سے وافر دستیابی تک ، میٹاسکویا چین کی جانب سے نباتاتی تحفظ کی ایک اور اہم کامیابی ہے۔ اس کے ساتھ ہی چین کے نیشنل بوٹینیکل گارڈن میں دنیا بھر کے دیگر پودے بھی موجود ہیں، جن میں کئی نایاب اقسام بھی شامل ہیں۔ گرین ہاؤس میں، باؤباب کے درخت، امورفوفلس ٹائٹنم ، صد سالہ آرکیڈ ویلوٹشیا اور دیگر جادوئی پودے لوگوں کو دور دراز علاقوں کی کہانیاں اور کرہ ارض کی کروڑوں سالہ تاریخ بتاتے ہیں.
تو سوال یہ ہے کہ ہمیں پودوں کی حفاظت کیوں کرنی ہے؟ اگر آپ غور سے سوچیں تو پودوں سے ہماری زندگیوں کو بہت فائدہ ہوتا ہے۔ ہم جو کپڑے پہنتے ہیں وہ پودوں کے فائبر سے بنے ہوتے ہیں؛ جو سبزیاں کھاتے ہیں وہ پودوں سے حاصل ہوتی ہیں اور جو گوشت ہم کھاتے ہیں ان مویشیوں کی خوراک بھی پودوں سے حاصل ہوتی ہے، بہت سی ادویات پودوں سے بنتی ہیں، یہاں تک کہ جو پیٹرول ہم گاڑی چلانے کے لئے استعمال کرتے ہیں، وہ بھی پودوں سے آتا ہے جو لاکھوں سال پہلے مر گئے تھےاور زمین تلے ایندھن بن گئے ۔ پودے انسانی نشوونما کے لئے ناگزیر ہیں۔ اوسطاً، زمین پر ہر گھنٹے میں ایک حیاتیاتی نوع معدوم ہو جاتی ہے اور بہت سے نایاب اور خطرے سے دوچار پودے کسی بھی وقت دنیا چھوڑ سکتے ہیں. ایک پودے کے معدوم ہونے کا مطلب نہ صرف اس کی جینیاتی، ثقافتی اور سائنسی قدر کا نقصان ہے، بلکہ 10 سے 30 دیگر انواع بھی اس سے معدوم ہو سکتی ہیں ۔ جب ہم کسی پودے کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں، تو ہم نہ صرف کسی انفرادی گھاس یا پھول کی حفاظت کرتے ہیں، بلکہ کیڑے مکوڑوں کی بھی حفاظت کرتے ہیں جن کی زندگیاں اس پودے پر منحصر ہوتی ہیں، اور اس سے ان پرندوں کو بھی تحفظ ملتا ہے جو ان کیڑوں پر منحصر ہوتے ہیں، اس کے علاوہ ان پرندوں کے مسکن ان ہی نباتات سے وابستہ ہیں۔ پودے مٹی میں موجود بہت سے فائدہ مند مائکرو ایلیمنٹس کی بھی حفاظت کرتے ہیں ، غرض یہ پودے اس کرہ ارض کے ایکو سسٹم کا ایک لازمی حصہ ہیں ۔ پودوں کی حفاظت کرنے سے ہم حیاتیاتی تنوع اور ماحولیاتی نظام کے استحکام کی حفاظت کر رہے ہیں۔
حالیہ برسوں میں ، چین نے حیاتیاتی تنوع کے تحفظ میں بہت سے مثبت اقدامات اٹھائے ہیں۔اس کی بنیادی وجہ انسان اور فطرت کی ہم آہنگ ترقی کے لئے نیک خواہشات ہیں اور اس سے زمین پر زندگیوں کے مشترکہ مستقبل کے لیے چین کے جدوجہد کے عزم کی عکاسی بھی ہوتی ہے۔ اکتوبر 2021 میں ، چین نے باضابطہ طور پر نیشنل پارکس کی پہلی کھیپ قائم کی جن میں سین جیانگ یوان یعنی تین دریاؤں کا منبع ، پانڈا ، شمال مشرقی شیر اور چیتے ، ہائی نان ٹراپیکل رین فاریسٹ اور ووئی ماؤنٹین سمیت پانچ پارکس شامل ہیں۔ اپریل 2022 میں ، بیجنگ میں نیشنل بوٹینیکل گارڈن کا باضابطہ افتتاح ہوا۔ جولائی 2022 میں ، گوانگ چو میں جنوبی چین کے نیشنل بوٹینیکل گارڈن کا باضابطہ افتتاح ہوا۔ نیشنل پارکس سمیت نیچر ریزرو سسٹم ان سیٹو کنزرویشن کا بنیادی طریقہ ہے ، جبکہ نیشنل بوٹینیکل گارڈن کے ساتھ مختلف نباتاتی باغات ایکس سیٹو کنزرویشن کے اہم مقامات ہیں۔ دونوں مل کر حیاتیاتی تحفظ کے نسبتاً مکمل نظام کی تشکیل کرتے ہیں۔
اپریل میں بیجنگ شہر میں جابجا موسم بہار کے دلفریب مناظر دکھائی دیتے ہیں۔جب لوگ نیشنل بوٹینکل گارڈن میں سیر کرتے ہیں ،تو چینی پودوں کے ساتھ غیرملکی نایاب پودوں سے بھی لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں نباتاتی انواع کی وجہ سے یہاں جانوروں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔لوگ دل سے یہ محسوس کر سکتے ہیں کہ کرہ ارض نہ صرف انسانوں بلکہ مختلف جانداروں اور پودوں کا بھی گھر ہے۔تمام انواع ایک دوسرے کے لئے نقصان دہ ہونے کے بجائے مل کر ایک ساتھ نشونما کر سکتے ہیں۔ کاش اسی اعتماد کے ساتھ دنیا میں دیگر اختلافات و تنازعات کا بھی حل ممکن ہو پائے۔