چینی طرز کی جدیدکاری دنیا کے لئے مواقع فراہم کرتی ہے

2023/04/25 11:08:23
شیئر:


بہتر زندگی کی خواہش لوگوں کی فطری جستجو ہے۔ یہ ہر ملک کی معقول جستجو، ذمہ داری اور حق ہے کہ وہ عوام کو ایسا ماحول فراہم کرے جس میں لوگ رہائش، روزگار ، بہتر تعلیم، صحت اور قدرتی ماحول اور  ہم آہنگ بیرونی تعلقات سے لطف اندوز ہو سکیں اور ایک پرامن اور خوبصورت دنیا کی تعمیر کے لئے دوسرے ممالک کے ساتھ کام کریں. آج کے چین میں اس طرح کی جستجو چینی طرز کی جدیدکاری ہے۔

گزشتہ دو صدیوں کے دوران، چین نے غربت سے دولت اور ذلت سے وقار کی طرف ایک مشکل سفر  طے کیا ہے. بے شمار محب وطن افراد  نے قوم کو خطرے سے بچانے کے لئے اپنے خون اور جانوں کا نذرانہ پیش کرکے چین کے قومی حالات کے مطابق ترقی کا راستہ تلاش کر لیا اور یوں ملک اور قوم کا نیا جنم ہو ا . آج کا چین دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت، سب سے بڑا مینوفیکچرنگ ملک اور اشیائ  کی تجارت کا سب سے بڑا ملک ہے ۔ چین نے دنیا بھر میں لازمی تعلیم، سماجی تحفظ اور طب اور صحت کا سب سے بڑا  نظام قائم کیا ہے اور  مغربی ترقی یافتہ ممالک کی سینکڑوں سال  میں مکمل کی جانے والی صنعت کاری کا عمل صرف چند دہائیوں میں مکمل کیا ہے۔ اب چین ، چینی طرز کی جدیدکاری کے ذریعے چینی قوم کی عظیم نشاۃ ثانیہ کو جامع طور پرآگے بڑھا رہا ہے۔

 چینیوں کے خون میں بالادستی کا "جین "نہیں ہے۔ چینی طرز کی جدیدکاری جارحیت، نوآبادیات  اور لوٹ مار پر انحصار نہیں کرتی۔ چین نے ہمیشہ بین الاقوامی تنازعات کو مشاورت اور بات چیت  سے حل کرنے کی وکالت کی ہے۔ آج تک چین دنیا میں واحد ملک ہے جس نے اپنے آئین میں "پرامن ترقی کے راستے پر عمل پیرا رہنے" کو شامل کیا ہے۔ چین اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن ممالک میں  سب سے زیادہ امن دستے بھیجنے والا اور جوہری ہتھیاروں سے لیس پانچ ممالک میں واحد ملک ہے جس نے جوہری ہتھیاروں کے استعمال میں پہل نہ کرنے کا عہد کیا ہے۔

چینی طرز کی جدیدکاری تمام لوگوں کی مشترکہ خوشحالی اور سماجی انصاف  کا راستہ ہے ۔ اندرونی طور پر چین پولرائزیشن کی روک تھام پر، پرعزم ہے، جس کی بدولت  800 ملین سے زیادہ لوگوں کو غربت سےچھٹکارہ حاصل ہوا اور 400 ملین لوگ درمیانی آمدنی والے گروپ میں شامل ہو ئے. بیرونی طور پر چین ہم نصیب معاشرے کی وکالت کرتا ہےاور "اپنے ملک کو ترجیح دینے" کی بجائے  ملکی ترقی کے حصول کے ساتھ ساتھ  دنیا کو  ترقی کے مزید نئے مواقع فراہم کررہا ہے۔ آج چین 140 سے زائد ممالک اور علاقوں کا سب سے  بڑا تجارتی شراکت دار بن چکا ہے اور ہر روز 320 ملین امریکی ڈالر کی براہ راست سرمایہ کاری  چین کی طر ف سے  دنیا میں جاتی ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ انیشییٹو سے لے کر گلوبل ڈیولپمنٹ انیشییٹو ، گلوبل سیکیورٹی انیشییٹو اور گلوبل سولائزیشن انیشییٹو تک، حالیہ برسوں میں چینی رہںما کی جانب سے پیش کئے گئے متعدد  انیشیٹیوز زمیں تعاون اور مشترکہ کامیابیوں کے  تصور کی عکاسی کی گئی۔یہ اقدامات چین نے صرف کہے نہیں بلکہ انہیں کر کے دکھایا ہے ۔ بیلٹ اینڈ روڈ انیشییٹو کی پیشکش کے بعد سے گزشتہ دس سالوں میں، تعاون کے 3000سے زیادہ منصوبے تشکیل دِیے گئے ہیں، جن سے ٹریلین امریکی ڈالرز کی سرمایہ کاری ہوئی ہے اور عالمی اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کا کردار جی 7 ملکوں کے مجموعی کردار کے مقابلے میں بھی  زیادہ  ہے.

اعداد و شمار کے مطابق 2013سے 2022 تک بیلٹ اینڈ روڈ انیشییٹو سے وابستہ ممالک کے ساتھ چین کی اشیائ  کی تجارت کی مالیت 1.04 ٹریلین ڈالر سے بڑھ کر 2.07 ٹریلین ڈالر رہی  ، جس کی اوسط سالانہ شرح نمو 8 فیصد ہے۔ سرمایہ کاری کے لحاظ سے 2013 سے 2022 تک بیلٹ اینڈ روڈ سے وابستہ ممالک کے ساتھ چین کی دو طرفہ سرمایہ کاری 270 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی۔ 2022 کے اختتام تک چینی  صنعتی اداروں نے بیلٹ اینڈ روڈ سے وابستہ ممالک میں تعمیر کردہ اقتصادی اور تجارتی تعاون کے زونز میں 57.13 بلین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے جس سےروز گار کے 421،000 مقامی مواقع فراہم  کیے گئے ۔ انجینئرنگ کے شعبے میں چین کے بیلٹ اینڈ روڈ سے وابستہ ممالک میں دستخط شدہ نئے معاہدوں کا حجم  1.2 ٹریلین امریکی ڈالر سے تجاوز کر گیا جو چین کے بیرونی معاہدوں کی کل مالیت کے نصف حصے سے بھی زیادہ ہے۔

پرامن اور مشترکہ ترقی قدیم زمانے سے ہی چینی ثقافت کا خاصہ رہی ہے۔ چین کی  1.4 ارب سے زائد  آبادی  موجودہ ترقی یافتہ ممالک کی کل آبادی سے زیادہ ہے۔ ہم آہنگ بقائے باہمی کے تصور  کے حامل چین کی  جدیدکاری میں داخلہ یقینا دنیا کے تمام ممالک کو ترقی کے مزید مواقع  ، عالمی معیشت کو مزید قوت محرکہ اور عالمی امن کے لئے زیادہ مثبت توانائی فراہم کرےگا۔