بین الاقوامی سیٹلمنٹ مقامی کرنسی میں ہونے کا عمل اب ناگزیر رجحان بن چکا ہے

2023/04/26 14:45:37
شیئر:

 

24 اپریل کو روسی وزیر خزانہ سرگئی سیلوانوف نے ایک فورم میں کہا ہے کہ روس اور چین کے درمیان 70 فیصد سے زیادہ تجارتی سیٹلمنٹ  مقامی کرنسی میں تبدیل ہو چکی ہیں، جو ایک یا دو سال پہلے تقریباً 30 فیصد تھیں۔ اگر روس کی جانب سے تجارتی سیٹلمنٹ  کے لیے مقامی کرنسی کا استعمال امریکہ اور مغرب کے غلبے والے سوئفٹ نظام سے روس کے اخراج کی وجہ سے ہے تو مقامی کرنسی سے تجارتی سیٹلمنٹ کی حالیہ بھاری خبریں مقامی کرنسی کے عالمی رجحان کے آغاز کی نشاندہی کرتی ہیں۔

مارچ میں آسیان کے وزرائے خزانہ اور مرکزی بینک کے گورنروں کے اجلاس میں مقامی کرنسی  میں سیٹلمنٹ  کو فروغ دینے پر زور دیا گیا۔ چین اور برازیل نے مقامی کرنسی سے تجارتی سیٹلمنٹ قائم کرنے کا معاہدہ کیا۔ اپریل میں بھارت اور ملائیشیا نے بھارتی روپے میں تجارتی معاملات طے کرنے پر اتفاق کیا ۔ ملائیشیا کے وزیر اعظم انور کا کہنا  ہے کہ ملائیشیا اور چین نے مقامی کرنسی میں تجارتی سیٹلمنٹ  پر اتفاق کیا ہے  بلکہ انہوں نے اپنے دورہ چین کے دوران چین کو "ایشین مانیٹری فنڈ" قائم کرنے کا خیال بھی پیش کیا ہے۔ یورپی یونین کے رہنما ملک فرانس کے  صدر ایمانوئل میکرون کے دورہ چین سے پہلے چائنا نیشنل پیٹرولیم کارپوریشن اور فرانس کے مابین مقامی کرنسی میں  تجارتی سیٹلمنٹ کا طریقہ کار طے کیا گیا۔ درحقیقت تاحال برکس، شنگھائی تعاون تنظیم اور اوپیک تنظیموں کے 29 ممالک چین کے ساتھ مقامی کرنسی میں تجارتی سیٹلمنٹ  کر چکے ہیں۔ مقامی کرنسی سے تجارتی سیٹلمنٹ  کرنے والے یہ ممالک  یورپ اور ایشیا سے لے کر لاطینی امریکہ تک اہم ممالک اور بڑی آبادی والے علاقوں کا احاطہ کرتے ہیں۔

اعداد وشمار کے لحاظ سے مقامی کرنسی سیٹلمنٹ  کی موجودہ لہر میں امریکی ڈالر کے تناسب میں کمی ظاہرہوئی ہے۔ آئی ایم ایف کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق 2022 کے اختتام تک عالمی زرمبادلہ کے ذخائر میں امریکی ڈالر کا تناسب گر کر 58.36 فیصد رہ گیا تھا۔ امریکی قومی بانڈز کے اعداد و شمار، جو غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کا بنیادی اثاثہ ہیں، بھی مایوس کن ہیں۔ رواں سال 17 مارچ تک امریکی قرضوں کا حجم 31.6 ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے جو  31.7 ٹریلین ڈالر کی حد سے صرف ایک قدم کے  فاصلے پر  ہے جبکہ عالمی سطح پر امریکی قرضوں کو کم کرنے کا رجحان برقرار ہے۔ امریکی محکمہ خزانہ کے فروری 2023 کے امریکی ٹریژری ہولڈنگز کے اعداد و شمار کے مطابق، سب سے زیادہ کمی برطانیہ نے کی، اس کے بعد جاپان جبکہ کینیڈا  18.8 بلین امریکی ڈالر کی کمی سے تیسرے نمبر پر تھا. مضبوط اتحادیوں کی جانب سے ہولڈنگز میں تیزی سے کمی سے مراد یہ ہے کہ بھلے ہی امریکہ قومی قرضوں کی حد میں اضافہ  بھی کرتا ہے، لیکن اس کے لیے آئندہ بڑا خریدار ڈھونڈنا مشکل ثابت ہوگا۔

امریکی قرضوں کا مخمصہ خود امریکہ میں بڑے مسائل کی عکاسی کرتا ہے۔ امریکی قرضوں کا  حجم  امریکی جی ڈی پی کا 124 فیصد ہو چکا ہے اور موجودہ بینچ مارک شرح سود 5 فیصد سے حساب کیا جائے تو سالانہ  تقریباً 1.6 ٹریلین ڈالرکا سود بنتاہے۔اس خسارے  کو پورا کرنے کے لئے امریکی معیشت کی سالانہ شرح نمو 6.3 فیصد تک پہنچنا لازم ہے۔ مگر امریکی معیشت میں سالانہ ایک ٹریلین ڈالر  کی  ترقی بھی مشکل ہے اور امریکی قرضوں پر ڈیفالٹ کا خطرہ نہ صرف موجود ہے بلکہ طویل عرصے تک موجود رہے گا،تو دنیا امریکی قرضوں پر اعتماد کیسے برقرار رکھ سکتی ہے؟

مندرجہ بالا صرف ایک سادہ ریاضیاتی حساب ہے ، اور اس میں کئی سالوں سے امریکی معیشت میں  "مجازیت کی طرف منتقلی" کے باعث  پیدا ہونے والے ڈھانچہ جاتی مسائل شامل نہیں ہیں۔ امریکہ کی جانب سے روس کو سوئفٹ سسٹم سے باہر نکالنے اور 300 ارب ڈالر کے روسی اثاثوں کو ضبط کرنے جیسی پابندیوں نے تمام دوسرے ممالک کو سیاسی خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ امریکی وزیر خزانہ یلین نے بھی حال ہی میں تسلم کیا ہے کہ امریکہ کی جانب سے روس اور دیگر ممالک پر عائد اقتصادی پابندیاں ڈالر کی بالادستی کو خطرے میں ڈال سکتی ہیں۔ نامکمل اعداد و شمار کے مطابق، 60 سے زیادہ ممالک نے امریکہ میں مالیاتی خطرات سے بچنے کے لئے مقامی کرنسی سیٹلمنٹ  یا قابل اعتماد دیگر کرنسیوں کا استعمال کرتے ہوئے مختلف طریقوں سے ڈی-ڈالرائزیشن کے اقدامات کو اپنانا شروع کر دیا ہے.

ایک بار جب ایک رجحان تشکیل پاتا ہے تو ، اسے تبدیل کرنا مشکل ہوتا ہے۔ کیونکہ بنیادی منطق کی تبدیلی آسان نہیں ہوتی جب تک امریکہ رضاکارانہ طور پر اپنے طرز عمل کو تبدیل نہیں کرتا اور قرضوں کے بحران اور اپنی معیشت کے پیچھے موجود بنیادی مسائل کو ختم نہیں کرتا۔ اس سے قبل امریکی سینیٹر روبیو نے کہا تھا کہ اگردوسرے ممالک امریکی ڈالر چھوڑ کر دوسری  کرنسیوں میں تجارت کرتے ہیں تو امریکہ 5 سال بعد ان ممالک پر پابندیاں عائد نہیں کر سکے گا۔

امریکہ اپنے گھر میں لگی آگ سے آنکھیں چرا کر بھی اگر  دوسروں پر پابندیاں لگانے کا سوچ رہا ہے تو اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟