24 اپریل کو "چین کا خلائی دن" منایا گیا ہے. چاہے وہ قدیم چینی افسانہ " چانگ عہ چاند کی طرف اڑان " ہو یا دور حاضر میں چین کی خلائی صنعت کی تیز رفتار ترقی ، یہ سب وسیع کائنات کی تحقیق کے لئے چین کی خواہشات کا اظہار ہے . جیسا کہ صدر شی جن پھنگ نے 24 اپریل 2016 کو چین کے پہلے خلائی دن کے موقع پر نشاندہی کی کہ وسیع کائنات کی تلاش اور خلائی صنعت کی ترقی ،چینی قوم کا عظیم خواب ہے۔
24 اپریل 1970 کو چین نے کامیابی کے ساتھ اپنا پہلا مصنوعی سیارہ "ڈونگ فانگ ہونگ 1" لانچ کیا جس سے کائنات کی تلاش اور خلا کے پرامن استعمال کا آغاز کیا گیا ۔ آج ، چینی خلائی اسٹیشن ایپلی کیشن اور ترقی کے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے ۔ چین کا اپنا نیویگیشن سسٹم بیدو سیٹلائٹ گلوبل نیٹ ورکنگ ، چین اور دنیا کے دیگر ممالک کے لئے نیویگیشن اور پوزیشننگ سروسز فراہم کر رہا ہے ۔چانگ عہ 5 کی جانب سے زمین پر واپس لائے جانے والے چاند کے نمونوں میں نئی معدنیات دریافت ہوئیں ، چینی سائنسدانوں نے اسے 'چانگ عہ پتھر' کا نام دیا ۔شینژو 14 اور شینژو 15 کے خلابازوں نے چین کے خلائی اسٹیشن میں ملاقات کی ۔چین کی جانب سے مریخ پر پہلا خلائی نقشہ جاری کیا گیا۔ چین کی خلائی صنعت کی ترقی سے ماضی کا خواب اب ہمارے سامنے حقیقت بن رہا ہے، اور چین پوری رفتار سے ستاروں کے سمندر کا تعاقب کر رہا ہے۔
چاند پر اترنا ہمیشہ سے چین کا خواب رہا ہے۔ چین میں ایک قدیم افسانہ ہے جس کا عنوان "چانگ عہ چاند کی طرف اڑان " ہے، جس میں چھانگ عہ نامی ایک خاتون کی کہانی بیان کی گئی ہے جس نے چاند کے محل کی طرف پرواز کی، اس کے شوہر نے ستاروں سے بھرے آسمان کو دیکھا، قریب ہی ایک خرگوش درخت کے نیچے چھلانگ لگا رہا تھا، اور اس کی بیوی ایک درخت کے پاس کھڑی تھی اور اپنے شوہر کی طرف پیار سے دیکھ رہی تھی۔ یقینا اس دور میں ہم سب جانتے ہیں کہ چاند پر کوئی نہیں ہے لیکن چین کا چاند پر قدم رکھنے کا خواب ہمیشہ سے ہی رہا ہے۔ چاند ہمارے خوبصورت گھر کرہ ارض سے قریب ترین ہے ، اور چاند کی تحقیق انسان کے لئے کرہ ارض سے باہر نکل کر کائنات کو دریافت کرنے کا پہلا اسٹاپ ہے۔ چاند کی تحقیق کے چینی منصوبے نے اگلے چند سالوں کے لئے مشن کے اہداف کی وضاحت کی ہے ، اور اس سال 25 اپریل کو ، چائنا نیشنل اسپیس ایڈمنسٹریشن اور ایشیا پیسفک اسپیس کوآپریشن آرگنائزیشن نے بین الاقوامی سائنسی تحقیقی اسٹیشن پر تعاون کے ایک مشترکہ بیان پر دستخط کیے۔ چین کے چاند کے تحقیقاتی منصوبے کے چیف ڈیزائنر وو وے رین نے حال ہی میں میڈیا کو بتایا کہ 2030 سے قبل چینی خلا بازوں کے قدموں کے نشان چاند پر ضرور ہوں گے۔ یہ کتنا دلچسپ دن ہوگا جسے تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
اپنی خلائی صنعت کو ترقی دینے میں ، چین "جامع مشاورت ، مشترکہ تعمیر اور فوائد کے اشتراک" کے تصور پر عمل پیرا ہے ، اور بیرونی خلا کے میدان میں بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کو فروغ دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ گزشتہ 30 سالوں کے دوران ، چین نے 43 ممالک یا خطوں اور 6 بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ خلا کے میدان میں مجموعی طور پر 136 تعاون کی دستاویزات پر دستخط کیے ہیں ، 9 قومی خلائی ایجنسیوں کے ساتھ خلائی تعاون کے خاکے پر دستخط کیے ہیں ، اور 17 خلائی تعاون میکانزم قائم کیے ہیں۔ مثال کے طور پر چین اور پاکستان تین دہائیوں سے زائد عرصے سے خلا کے میدان میں تعاون کر رہے ہیں اور 1990 کے اوائل میں چین کے لانگ مارچ 2 بنڈل راکٹ کو پہلی بار کامیابی کے ساتھ لانچ کیا گیا جس سے پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ (بدر-اے) مدار میں بھیجا گیا ۔ 2011 میں چائنا اکیڈمی آف اسپیس ٹیکنالوجی کی جانب سے تیار کردہ پاکستان کمیونیکیشن سیٹلائٹ 1 آر (پاک سیٹ-1 آر) کو لانگ مارچ 3 بی کیریئر راکٹ کے ذریعے کامیابی سے لانچ کیا گیا تھا جو پاکستان کو براڈ بینڈ انٹرنیٹ، ٹیلی کمیونیکیشن اور براڈکاسٹنگ سروسز فراہم کرتا ہے اور تاحال دس سال سے زائد عرصے سے مدار میں موجود ہے۔ 2019 میں چین اور پاکستان نے انسان بردار خلائی پرواز کے تعاون کے معاہدے پر دستخط کیے تھے، جو دونوں ممالک کے درمیان اس شعبے میں تعاون کے ایک نئے مرحلے کی نشاندہی کرتا ہے۔ 5 جون2022ءکو سات پاکستانی پودوں کے بیج شینژو 14 خلائی جہاز پر چین کے خلائی اسٹیشن پہنچے، اور چھ ماہ تک خلا میں رہنے کے بعد زمین پر واپس آئے۔ اس طرح پاکستانی اجناس کی خلائی افزائش نسل کے لیے ایک نیا آغاز ہو چکا ہے اور چین پاکستان سائنسی و تکنیکی تعاون میں ایک سنگ میل بن گیا ہے۔
آج انسانیت خلائی تحقیق کے ایک نئے دور میں داخل ہو رہی ہے ، چین دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ تعاون کو مزید مضبوط بنائے گا، مشترکہ طور پر بیرونی خلاء کی تحقیق کو پرامن طریقے سے استعمال کرے گا، اور انسانی تہذیب کی ترقی کی خدمت میں بہترین کردار ادا کرے گا۔