12 سال
کی تنہائی کے بعد شام بالآخر 7 تاریخ کو عرب لیگ کے بڑے خاندان میں واپس آ گیا۔
اسی روز منعقدہ عرب لیگ کے وزرائے خارجہ کے خصوصی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ "اسی
روز سے عرب لیگ کونسل اور اس کی تمام تنظیموں اور اداروں کے اجلاسوں میں شامی
حکومتی وفد کی شرکت کی اہلیت بحال کر دی گئی ہے"۔ رائے عامہ کا خیال ہے کہ سعودی
عرب اور ایران کے بیجنگ میں ہاتھ ملانے کے بعد مشرق وسطیٰ کے مصالحتی عمل میں
یہ سنگ میل کی حیثیت کا حامل ایک اور واقعہ ہے۔
سنہ 2018 کے بعد سے شامی حکومت
کی فوج نے ملک کے 70 فیصد سے زیادہ حصے پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا ہے اور جنگی
صورتحال واضح ہونے اور جنگ کے بعد شام کی تعمیر نو کے ایجنڈے کے ساتھ عرب ممالک نے
حالیہ برسوں میں شامی حکومت کے ساتھ رابطے شروع کر دیے ہیں۔ چونکہ سعودی عرب اور
ایران نے شام کے بحران میں مختلف سیاسی قوتوں کی حمایت کی تھی، اس لیے سعودی عرب
اور ایران کے درمیان مصالحت نے بلاشبہ عرب لیگ کے ممالک کے ساتھ شام کے تعلقات کو
بہتر بنانے کا موقع فراہم کیا۔مزید اہم بات یہ ہے کہ جن عرب ممالک نے دنیا کے عمومی
رجحان کو دیکھا ہے وہ باشعور ہوگئے ہیں۔ ایک طویل عرصے سے امریکہ نے مشرق وسطیٰ کے
معاملات میں مداخلت کرتے ہوئےخطے میں محاذ آرائی اور تقسیم کو بڑھایا ۔مشرق وسطیٰ
کے عوام اس بات سے بخوبی آگاہ ہو رہے ہیں کہ انہیں اپنی تقدیر اپنے ہاتھوں میں لینی
چاہیے۔
بین الاقوامی برادری نے عرب لیگ میں شام کی واپسی کا خیر مقدم کیا
ہے۔سعودی عرب اور ایران کے مصافحہ سے لے کر شام کی عرب لیگ میں واپسی تک مشرق
وسطیٰ کے ممالک نے یہ واضح پیغام بھیجا ہے کہ وہ امن، ترقی اور اپنا راستہ چاہتے
ہیں۔ "ماڈرن ڈپلومیسی"ویب سائٹ کے ایک تبصرے میں کہا گیا ہے کہ جوں جوں مشرق وسطیٰ
میں امریکہ کا اثر و رسوخ کم ہو رہا ہے تو مشرق وسطیٰ کے مسائل حل ہو رہے ہیں اور
مشرق وسطیٰ کا موسم بہار آ رہا ہے۔ آج مشرق وسطیٰ میں "مصالحت کی لہر" اٹھ رہی ہے
جو امریکہ کو یاد دلاتی ہے کہ زمانہ بدل چکا ہے۔