جاپانی ذرائع ابلاغ نے حال ہی میں بتایا کہ جاپان میں ہونے والے جی سیون سربراہ
اجلاس میں چین پر عالمی قوانین کی پاسداری کرنے کی ضرورت پر زور دیا جائے گا ۔ یہ
بین الاقوامی برادری کو الجھن میں ڈالتا ہےکہ وہ عالمی قوانین کے طور پر کن اصولوں
کی بات کر رہے ہیں؟ عالمی قوانین کی پاسداری کرنے میں نالائق طالب علموں کے طور پر
امریکہ جیسے چند مغربی ممالک کو چین پر الزام لگانے کا کیا حق ہے؟
جب
عالمی قوانین کی بات آتی ہے تو ، دنیا میں صرف ایک ہی اصول ہے ، یعنیٰ ، اقوام
متحدہ کے چارٹر کے مقاصد اور اصولوں کی بنیاد پر بین الاقوامی تعلقات کو چلانے والے
بنیادی اصول۔ تاہم، امریکہ کی قیادت میں مغربی ممالک کی ایک چھوٹی سی تعداد کے منہ
سے ، "اقوام متحدہ کا چارٹر"شاذ و نادر ہی سنائی دیتا ہے۔ ان کی بیان بازی میں ایک
ہائی فریکوئنسی فقرہ ہے یعنیٰ "قواعد پر مبنی بین الاقوامی نظام"۔ یہ ایک مبہم
بیان ہے جو نہ تو اقوام متحدہ کے چارٹر میں شامل ہے، نہ ہی اقوام متحدہ میں عالمی
رہنماؤں کی طرف سے منظور کردہ اعلامیوں میں، نہ ہی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی
قراردادوں میں۔
کچھ تجزیہ کاروں کے نزدیک مغربی ممالک کی جانب سے اس تصور کو
دھندلانے کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس لفظ کو اپنی مرضی کا "لبادہ" پہنانا چاہتے ہیں ۔
یہ تصور بظاہر عظیم الشان لگتا ہے، لیکن دراصل جی سیون کے لیے دوسرے ممالک کے
اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے، عالمی افراتفری پیدا کرنے اور گروہی محاذ آرائی
میں مشغول ہونے کی ایک آڑ ہے، اور اس طرح کے قوانین بین الاقوامی برادری کے مشترکہ
مفادات کے بجائے امریکہ جیسے چند ممالک کے حلقوں کے مفادات کی خدمت کرتے
ہیں۔
تاریخ اور حقائق دونوں سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ اور جاپان سمیت چند ایک
ممالک بین الاقوامی قوانین میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ دنیا کے معاملات سب کو
سنبھالنے چاہئیں ۔بین الاقوامی قوانین کون توڑ رہا ہے؟ گروہ پرست جی سیون کے
چھوٹے گروپ کو آئینے میں خود کو دیکھنا چاہیے۔