حالیہ دنوں امریکہ میں قرض کی حدکے بارے میں خبریں عالمی توجہ کا مرکز بنیں ر ہیں۔ اکتیس مئی کو امریکی ایوان نمائندگان نے ووٹنگ کے ذریعے قرض کی حد کا بل منظور کیا۔ بل میں قرض کی موجودہ حد کو ۲۰۲۵ کے اوائل تک معطل کرتے ہوئے مالی سال ۲۰۲۴-۲۵ ۲۰ میں اخراجات کو محدود کیا گیا ہے۔ اس بل کو منظوری کے لیے سینیٹ میں بھیجا جائے گا اور منظوری کی صورت میں نفاذ سے پہلے اسے دستخط کے لیے امریکی صدر جو بائیڈن کے سامنے پیش کیا جائے گا ۔اگر بل کی حتمی منظوری ہو جاتی ہے ،تو امریکی قرض ڈیفالٹ کا الرٹ عارضی طور پر ختم ہو جائےگا۔تاہم تاریخ میں امریکہ نے بہت زیادہ مرتبہ قرض کی حد بڑھائی ،لیکن پھر بھی وہ قرض ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچ جاتا ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرض کی حد بڑھانے نیز معطل کرنے سے امریکہ کے مسائل کو بنیادی طورپر حل نہیں کیا جا سکتا بلکہ مزید منفی نتائج رونما ہوسکتے ہیں۔
تجزیہ نگاروں نے نشاندہی کی ہے کہ اگر قرض کی حد کو معطل کردیا جائے گا تو امریکی حکومت مزید قرض لے گی جو مالیاتی شعبے میں غیریقینی کا باعث بن سکتا ہے۔امریکی کانگریس کے اعدادوشمار کے مطابق،دوسری جنگ عظیم کے بعد کانگریس نے قرض کی حد میں ۱۰۲ مرتبہ ترمیم کی ہے۔صرف سال 2001 کے بعد قرض کی حد میں بیس مرتبہ تبدیلی ہوئی ہے اور قرض کا حجم 5.73 ٹریلین سے بڑھ کر اب 31.46 ٹریلین ڈالر تک جا پہنچا ہے۔
کافی زیادہ متعلقہ شخصیات کے خیال میں امریکی قرض میں باربار بحرانات کا سبب امریکی ڈالر کا غلبہ ہے۔ برسوں سے امریکہ ڈالر کی برتری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مالیاتی تعزیرات نافذ کرتا رہا ہے اور امریکی فیڈرل ریزرو شرح سود میں اضافہ کرتا رہا ہے۔اس سے بہت زیادہ ممالک،خاص طور پر ترقی پذیر ممالک سنگین متاثر ہوئے۔مثلاً بیشتر لاطینی امریکی ممالک ڈالر پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں۔تاہم پچھلے سال سے امریکی فیڈرل ریزرو نے کافی مرتبہ شرح سود بڑھائی تاکہ اپنے ملک میں بلند افراط زر کو روکا جائے۔تاہم اس عمل سے مالیاتی خطرہ لاطینی امریکی ممالک سمیت دوسرے ممالک تک منتقل ہوا ہے۔
امریکی بینکوں میں جمع ڈالر اور خریدے گئے امریکی قومی بانڈز کو ضبط کیا جا سکتا ہے،سرحد پار مالیاتی تصفیوں کے سسٹم کو استعمال سےمحروم کیا جا سکتا ہے،پھر جمع کیے جانے والےامریکی ڈالراور امریکی قومی بانڈز کی قدر میں کمی کا بڑا خطرہ بھی ہے۔اسی پس منظر میں دنیا کے مختلف ممالک ڈالر کے غلبے کے خطرات محسوس کرنے لگے ہیں اورڈی ڈالرائزیشن ایک رجحان بن چکا ہے۔رواں سال برازیل،ارجنٹائن سمیت دیگر ممالک نے اپنی کرنسی میں تصفیے کی وکالت کی۔ملائیشیا نے ایشیائی مالیاتی فنڈ قائم کرنے کی تجویز پیش کی۔اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ مختلف ممالک کے سرکاری ذخائر میں ڈالر کا تناسب سال 1999 کے 71 فیصد سے کم ہو کر اب 59 فیصد سے بھی نیچے آگیا ہے۔جنوری میں بین الاقوامی تصفیوں میں امریکی ڈالر کا تناسب چالیس فیصد رہ گیا ہے۔
حالیہ دنوں پاکستانی اخبار ڈان میں شائع ہونے والے ایک تبصرے میں کہا گیا ہے کہ دوطرفہ تجارت میں ڈالر چھوڑنے والے ممالک کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس سے ڈالر عالمی معیشت پر اپنا اثر کھو رہا ہے۔سی جی ٹی این نے پوری دنیا کے نیٹزنز میں ایک سروے کیا ہے جس میں 85 فیصد جواب دہندگان کا یہ خیال ہے کہ مسلسل جاری رہنے والے امریکی قرض کے بحران نے ڈالر کی اہم عالمی ریزرو کرنسی کی حیثیت کو سنگین حد تک کمزور کردیا ہے۔ڈالر کا غلبہ ایک دودھاری تلوار ہے جس سے امریکہ نے بے شمار منافع کمایا ہے جوتجارتی خسارے میں اضافے اور بین الاقوامی ادائیگیوں میں عدم توازن کاباعث بھی بن گیا ہے۔مزید اہم بات یہ ہے کہ ڈالر اور امریکہ کا کریڈٹ سنگین خراب ہورہا ہے۔اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے امریکہ ڈالرکو "ہتھیار"بنانا ترک نہیں کرے گا۔تاہم بارہا رونما ہوتے امریکی قرضوں کے بحران اور ڈی ڈالرائزیشن کے رجحان کے تحت امریکی ڈالر کا غلبہ مزید کتنی دیرتک قائم رہ سکے گا؟یہ ایک بڑا سوال ہے۔