6 سے 8 جون تک امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے سعودی عرب کا دورہ کیا۔ یہ اس
سال اپریل میں سی آئی اے کے ڈائریکٹر برنز اور مئی میں قومی سلامتی کے مشیر سلیوان
کے بعد امریکی سینئر حکام کا سعودی عرب کا تیسرا دورہ ہے۔ رائٹرز کا خیال ہے کہ
امریکہ کو امید ہے کہ اپنے اتحادی سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو مستحکم
کرے۔
حالیہ برسوں میں اسٹریٹجک تبدیلی اور مشرق وسطیٰ کی توانائی پر مزید انحصار
نہ کرنے کے ساتھ، امریکہ کے سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ کے دیگر اتحادیوں کے ساتھ
تیل برائَے سلامتی کے تعلقات مزید ماند پڑ گئے ہیں۔اس کے علاوہ امریکہ کی جانب سے
غیر ذمہ دارانہ شرح سود میں اضافے نے مصر، لبنان اور دیگر ممالک کو شدید نقصان
پہنچایا ہے۔ امریکہ نے روس-یوکرین تنازعات کو ہوا دینا جاری رکھا ہے جس نے مصر جیسے
خوراک درآمد کرنے والے ممالک کو خوراک کے بحران میں مبتلا کر دیا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے
ممالک اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ امریکہ ناقابل اعتبار ہے، اور یہ کہ مستقبل اور
تقدیر مضبوطی سے اپنے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔
14 عرب ممالک میں "عرب سینٹر فار
پالیسی اینڈ ریسرچ" کی جانب سے 2022 کے سروے کے مطابق، 78 فیصد جواب دہندگان کا
خیال ہے کہ امریکہ مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام کا سب سے بڑا خطرہ اور ذریعہ
ہے۔
امریکی حکومت بار بار اعلیٰ حکام کو سعودی عرب بھیجتی ہے، اس کا بنیادی مقصد
مشرق وسطیٰ میں جغرافیائی سیاسی تبدیلیوں کو جلد از جلد روکنا اور سعودی عرب کے
ساتھ تعلقات کو مستحکم کرکے مشرق وسطیٰ کے اپنے اتحاد ی نظام کو بچانے کی امید
ہے۔
ایک طرف مشرق وسطیٰ متحد ہو کرآزاد ترقی کے لیے نئی تبدیلی کی تلاش میں
ہے اور دوسری طرف امریکہ کیمپوں کے درمیان تصادم کو ہوا دینے کی پرانی سوچ میں
مبتلا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں اٹھنے والی "مفاہمت کی لہر" نے امریکی دانشور گریگوری گاس
کی رائے کی تصدیق کر دی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امریکی تسلط کا دور ختم ہو چکا ہے۔