عالمی جوہری تونائی کے ادارے کے جون کے بورڈ آف گورنرز کے حالیہ اجلاس میں امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کے درمیان جوہری آبدوزوں پر تعاون کی سخت مخالفت کی گئی۔ چینی نمائندے نے اس معاملے پر ایک خصوصی بیان دیا اور روس، پاکستان، انڈونیشیا اور برازیل سمیت 20 سے زائد ممالک کے نمائند گان نے چین کے موقف سے اتفاق کیا اور بین الاقوامی جوہری عدم پھیلاؤ کے نظام اور بین الاقوامی قوانین کو برقرار رکھنے کا مشترکہ مطالبہ کیا۔
یہ مسلسل
آٹھواں موقع ہے جب آئی اے ای اے نے اس معاملے پر بین الحکومتی مذاکرات کی شکل میں
غور کیا ہے جس نے ایک بار پھر امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کی ایجنسیوں کے
سیکریٹریٹ کو اس منصوبے کی اجازت دینےپر مجبور کرنے کی کوشش کو ناکام بنا دیا ہے۔
تعاون کی آڑ میں یہ "اوکس" امریکہ کی جغرافیائی سیاسی حکمت عملی کو آگے بڑھانے کے
لئے آسٹریلیا کو ایک فارورڈ پوزیشن میں لانا چاہتا ہے، اور جغرافیائی سیاسی
مفادات کے لئے ایشیا بحر الکاہل کے خطے میں علاقائی تنازعات اور محاذ آرائی کو
بھڑکانے کے نیٹو کے معمول کی نقل کرنا چاہتا ہے۔
تینوں ممالک جوہری آبدوز تعاون
کی بات کرتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ جوہری پھیلاؤ میں مصروف ہیں ۔بین الاقوامی
ماہرین کے اندازوں کے مطابق امریکہ اور برطانیہ، آسٹریلیا کو کئی ٹن جوہری مواد
منتقل کرنا چاہتے ہیں جو 64 سے 80 جوہری ہتھیار تیار کر سکتا ہے۔ اس منصوبے سے بین
الاقوامی جوہری عدم پھیلاؤ کے نظام کو شدید نقصان پہنچے گا۔ کمبوڈیا کے وزیر اعظم
ہن سین نے 5 جون کو خبردار کیا تھا کہ جوہری آبدوز پر امریکہ، برطانیہ اور
آسٹریلیا کے درمیان تعاون خطرناک ہتھیاروں کی دوڑ کا آغاز ہے جس سے دنیا کو مزید
خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔انہوں نے کہا تھا آسیان جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کی
سختی سے مخالفت کرتا ہے۔
ایشیا بحرالکاہل کے خطے کو بڑی طاقتوں کے کھیلوں کے
لیے کسی شطرنج کی بجائے تعاون اور ترقی کے خطے کے طور پر دیکھا جانا چاہیے ۔ جوہری
سلامتی ، ممالک کے ذاتی مفادات یا سیاسی آلے کی بجائے بنی نوع انسان کے مستقبل
سے تعلق رکھتی ہے۔اگر کوئی بحر الکاہل کو طوفانی سمندر میں تبدیل کرنا چاہتا ہے
تو ایشیا بحرالکاہل کے خطے کے عوام ہرگز اس کی اجازت نہیں د یں گے ۔