چینی تہذیب کی پائیدار قوتِ حیات کے اہم محرکات

2023/06/14 10:56:46
شیئر:

چینی تہذیب کی ایک طویل اور گہری تاریخ ہے اور یہ واحد تہذیب ہے جو ہزاروں سال سے قائم ہے اور   ترقی کر رہی ہے۔ چینی تہذیب اپنی پائیدار  قوتِ حیات کو کیونکر برقرار رکھ سکتی ہے؟ چینی صدر شی جن پھنگ  کا کہنا ہے کہ قدیم زمانے سے ہی چینی تہذیب اپنی  کشادگی اور رواداری کے لیے پوری دنیا میں جانی جاتی رہی ہے اور اس نے دوسری تہذیبوں کے ساتھ تبادلوں اور باہمی سیکھنے کے عمل کے ذریعے مسلسل نئی زندگی حاصل کی ہے۔

"مغرب کا سفر" چین کا  ایک مشہور ناول ہے، جو   قدیم تھانگ شاہی  خاندان کے دور میں ایک بدھ راہب  اور  ان کے منکی کنگ سمیت تین پیروکاروں  کی کہانی بیان کرتا ہے ، وہ لوگ  صحیفے حاصل کرنے کے لئے مغرب کی جانب سفر کرتے ہیں  ۔ آج، منکی کنگ کی مقبولت دنیا بھر کے بہت سے ممالک میں  ہے اور بچے اسے بہت پسند کرتے ہیں. در اصل  مغربی جانب  صحیفوں کے حصول  کی کہانی چین کے تھانگ خاندان کے دور میں  ایک حقیقی تاریخی واقعے سے مماثلت رکھتی ہے   ، جب راہب شوان زانگ  شہر شی آن سے روانہ ہوئے، گندھارا سلطنت اور 100 سے زائد دیگر  ریاستوں سے گزرتے ہوئے  آخر کار ہندوستان پہنچے، جہاں انہوں نے دو سال سے زیادہ عرصے تک تعلیم حاصل کی اور  657 بدھا صحیفے لے کر چین واپس آئے۔ سفر کے دوران  راستے میں مختلف  ریاستوں کے رسم و رواج  ، ثقافت اور دیگر معاشرتی عوامل کا مطالعہ کیا اور  اس طرح دوسری تہذیبوں کی مثبت چیزیں چین تک پہنچیں ۔ چینی تاریخ میں ایک اور مشہور راہب فا شیان نے 14 سال میں 30 سے زائد  ریاستوں کا سفر کیا اور ان دونوں راہبوں نے چین میں بدھ مت کی ثقافت کو متعارف کرایا۔ اسی دوران تھانگ خاندان کے دور میں چین میں کئی دیگر مذاہب کو بھی متعارف کرایا گیا۔اس سے  یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ چینی تہذیب اشتراکیت  کی علامت ہے  اور اسی رواداری اور کھلے پن نے مختلف مذہبی عقائد  پر مبنی  ایک ہم آہنگ معاشرہ  پیدا کیا ہے اور اس سے چینی ثقافت کے کھلے ذہن کی عکاسی بھی  ہوتی ہے ۔

تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہم واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ چینی تہذیب نے مختلف غیر ملکی ثقافتوں کو قبول کیا اور ان کا احترام کیا، علاوہ ازیں   کچھ غیر ملکی ثقافتوں کو  اپنی  قومی ثقافت میں جذب اور مربوط کیا ، یوں  چینی ثقافت مزید مالامال ہو گئی ہے ۔ 1100سال قبل  تھانگ خاندان کا دارالحکومت چانگ آن اُس وقت بڑی آبادی کا حامل ایک بین الاقوامی شہر تھا، جس میں دوسری ریاستوں  کے سفارتی مشنز کے بہت سے نمائندے اور  سمندر پار  سے آنے والے کاروباری افراد رہا کرتے تھے ۔ ثقافت کے لحاظ سے یہ ایک رنگا رنگ منظر پیش کرتا  تھا . تھانگ  شاہی دور کی قومی موسیقی "ٹین میوزک" میں نہ صرف ہان قومیت کی موسیقی ورقص اور مغربی خطوں میں آباد  اقلیتی قومیتوں کی موسیقی اور رقص شامل ہیں ،بلکہ اس میں ہندوستان اور جنوب مشرقی ایشیاسمیت بہت سی غیر ملکی موسیقی اور رقص کی آمیزش بھی موجود ہے۔

قدیم سمندری شاہراہ ریشم چین کے جنوب مشرقی ساحل سے، بحیرہ جنوبی چین اور بحر ہند سے گزرتے ہوئے  بحیرہ احمر  کے ذریعے مشرقی افریقہ  اور یورپ  تک پہنچتی تھی ، جو  چین اور غیر ملکی ممالک کے درمیان تجارتی اور ثقافتی تبادلوں کے لیے ایک بہت بڑا بحری راستہ  تھا، اور سونگ اور یہ تجارتی اور ثقافتی تعلق یوآن شاہی خاندانوں کے  ادوار میں عروج پر پہنچا۔ اس  سمندری راستے سے چین کی ریشم، چینی مٹی کے برتن، چائے اور دیگر اشیاء کو پوری دنیا میں پہنچایا گیا، اور  اس کے ساتھ ساتھ، خوشحال تجارتی بندرگاہ چھوان چو  شہر بھی دنیا بھر کے  لاتعداد شپنگ تاجروں کے لیے پرکشش رہا ۔ اُس وقت چھوان چو میں عرب اور فارس کے مسلمانوں اور یہودیوں کی ایک بڑی تعداد  آباد  تھی ۔ عیسائیت اور ہندو مت بھی یہاں پھیل گئے۔ آج بھی مختلف ثقافتیں، قومیتی رسم و رواج اور عقائد یہاں ایک ساتھ آباد ہیں، اس شہر  میں دریافت ہونے والے کچھ مقبرے جو ثقافتی عوامل کو ملاتے ہیں اس کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ دوسری تہذیبوں کے ساتھ تبادلوں اور باہمی سیکھنے کے عمل میں ہی چینی تہذیب نے ایک کھلا نظام تشکیل دیا ہے اور اپنے اندرمسلسل نئی زندگی پیدا کی ہے۔

چین کی قدیم مشہور فلسفے کی  کتاب "لن یو " میں یوں کہا گیاہے کہ "دوست دور سے آتے ہیں، یہ کتنی خوشی کی بات ہے "۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چینی لوگ  دور سے  آنے والے دوستوں کو ہمیشہ خوش آمدید کہتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ ان سے سیکھنے کے لئے کچھ نہ کچھ موجود ہو گا . مختلف جگہوں کے لوگوں کے ساتھ مل کر ، چینی لوگ  مختلف ثقافتوں کے مابین ہم آہنگ بقائے باہمی اور باہمی سیکھنے کی جدوجہد کرتے ہیں۔ چینی تہذیب اتنی مضبوط کشادگی اور روا داری کی حامل ہے، اسی وجہ سے چینی تہذیب  ترقی اور  خود کو بہتر بنانے کی خصوصیات رکھتی ہے،  اور یہی وجہ سے چینی تہذیب بغیرکسی خلل کے ہزاروں سال سے جاری ہے۔