حالیہ دنوں "وکی لیکس" ویب سائٹ کے بانی جولین پال اسانج ایک بار پھر شہ سرخیوں میں آ گئے ہیں۔ مقامی وقت کے مطابق 13 تاریخ کو برطانوی ہائی کورٹ نے اس حوالے سے عوامی سماعت کی کہ آیا اسانج کو امریکہ کے حوالے کیا جائے یا نہیں۔ گزشتہ سال برطانوی حکومت نے اسانج کی امریکہ حوالگی کے حکم نامے پر دستخط کیے تھے جسے اسانج کی جانب سے برطانوی ہائی کورٹ میں اپیل کے بعد مسترد کر دیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ 2010 میں اسانج کی وکی لیکس ویب سائٹ نے افغانستان اور عراق کی جنگوں سے متعلق امریکی سفارتی ٹیلی گراف اور خفیہ امریکی فوجی دستاویزات کی ایک بڑی تعداد جاری کی تھی، جس سے امریکی جنگی جرائم بے نقاب ہوئے ۔ اس کے نتیجے میں امریکہ کی جانب سے اسانج کے خلاف متعدد الزامات عائد کیے گئے۔ اگر امریکہ انہیں تمام الزامات میں قصوروار ٹھہراتا ہے تو اسانج کو 175 سال تک قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔
کئی سالوں سے اس معاملے کو اگرچہ عالمی توجہ حاصل ہے لیکن یہ امریکی بالادست منطق پر لوگوں کے غصے اور بے بسی سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ بعض ذرائع ابلاغ نے نشاندہی کی کہ اسانج کے خلاف امریکی الزامات نے امریکی طرز کی ڈاکو منطق کی مضحکہ خیزی کو بے نقاب کر دیا: اسانج پر خفیہ معلومات کی چوری، اجراء اور دیگر سنگین جرائم کے امریکی الزامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسانج کے انکشافات حقائق پر مبنی ہیں۔اس صورت حال میں اسانج کے بجائے حقیقی مجرم خود امریکہ ہی ہونا چاہیے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مجرم وسل بلور کو سخت سزا دینے کی کوشش کر رہا ہے ،ایسے میں انصاف کہاں ہے؟ امریکہ کے لیے دوسرے لوگوں کے مظالم کو بے نقاب کرنے والا ایک ہیرو ہے، لیکن امریکہ کے اسکینڈلز کو بے نقاب کرنا ایک جرم ہے، اور یہی معیاری امریکی بیانیہ منطق ہے۔
مضحکہ خیز امریکی منطق نہ صرف اسانج کیس میں پائی جاتی ہے بلکہ اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ "امریکہ فرسٹ" کی پالیسی " قواعد پر مبنی بین الاقوامی نظام" میں کس طرح فٹ ہوتی ہے؟ اس طرح کے سوالات کا سامنا کرتے ہوئے، امریکہ کے پاس اپنی مضحکہ خیز منطق پر پردہ ڈالنے کے اپنے مختلف طریقے ہیں، ان میں سے ایک ہالی ووڈ فلموں کی بیان بازی ہے. مثال کے طور پر سفید پاؤڈر کی ایک چھوٹی سی بوتل کے بہانے عراق پر حملہ آور ہونے کے حوالے سے دنیا کی مذمت اور الزامات کے جواب میں ، ہالی ووڈ فلم "گرین زون" کا پلاٹ یہ ہے کہ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے انفرادی عہدیدار نے اپنے ذاتی ناپاک عزائم کو پورا کرنے کے لئے عراق سے متعلق وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے بارے میں جعلی تحقیقاتی رپورٹس تیار کیں، پھر امریکی صدر کو دھوکہ دیا، کانگریس کو دھوکہ دیا، امریکی عوام کو دھوکہ دیا اور پوری دنیا کو دھوکہ دے کر عراقی جنگ شروع کرا دی۔ ڈرامے کے اختتام پر انصاف کا پاس رکھنے والے امریکی فوجیوں نے دھوکے کو بے نقاب کیا ،نتیجہ یہ نکلا کہ برے آدمی کو وہ سزا ملی جس کا وہ مستحق ہے، اور امریکہ اب بھی عظیم اور بے گناہ رہا۔
ایک اور ہالی ووڈ فلم "کلنگ فورس" افغانستان پر امریکی حملے کے دوران نوجوان فوجی ایڈم کی کہانی بیان کرتی ہے، جس نے تمام تر رکاوٹوں اور یہاں تک کہ ظالم اسکواڈ کمانڈر کی جان سے مارنے کی دھمکیوں کے باوجود امریکی فوج کے نگران محکمے کو اپنے ساتھی فوجیوں کے عام افغان شہریوں کو قتل کرنے کے مظالم کی اطلاع دی اور بالآخر متعلقہ افسران اور فوجیوں کو سزا سنائی گئی۔ دوسری امریکی جنگوں کی طرح افغان جنگ بھی متنازع رہی ہے جس کی وجہ سے بڑی انسانی آفات اور بے شمار عام افغان شہری ہلاک ہوئے، اور یہ فلم دنیا کو یہ بتانا چاہتی ہے کہ اس سانحے کی اصل وجہ چند برے لوگوں کی برائی ہے جو فطرتاً برے ہوتے ہیں، اور امریکی انصاف بالآخر اچھائی کو فروغ دے گا اور برائی کو سزا دے گا، اور امریکہ اب بھی بے گناہ اور عظیم ہے۔
لوگ اکثر فلموں کو تفریحی پروگرام کے طور پر دیکھتے ہیں، لیکن ان کے پس پردہ محرکات انتہائی گہرے اور دور رس ہیں۔ ہالی ووڈ انصاف کے احساس سے بھرپور اداکاری کے ذریعے ناظرین کی آنکھوں پر پرجوش پٹی باندھ کر امریکہ کے قومی جرائم پر حفاظتی پردہ ڈال دیتا ہے، اور امریکہ کے لئے ایک ایسےوکیل کا کردار ادا کرتا ہے جو اپنے موکل کے جرائم کو جانتے ہوئے بھی اسے بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے . اس موضوع پر بات کرتے ہوئے، کیا آپ اب بھی یقین رکھتے ہیں کہ یہ ہالی ووڈ فیچر فلمیں صرف ہالی ووڈ کے فن پارے ہیں؟
آخری بات، امریکی منطق کیا ہے؟ دو ہزار سال پہلے چینی فلسفی چوانگ زی کے الفاظ میں: "ہک چوری کرنے والے کو سزا دی جاتی ہے،جبکہ ملک چوری کرنے والا حاکم بن جاتا ہے جس کو اپنا اصول اور اخلاقیات نافذ کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے"۔ امریکہ، جو عالمی بالادستی پر قابض ہے، اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ اسے "امریکی قوانین" پر مبنی بین الاقوامی نظام تشکیل دینے کا اعزاز حاصل ہے، اور اسے سیاہ اور سفید کو اپنی مرضی سے گڈمڈ کرنے اور اخلاقی طور پر اعلیٰ مقام پر قابض رہتے ہوئے بولنے کا استحقاق حاصل ہے۔ ایک بار جب کوئی ملک بالادستی کے غلط راستے پر چل پڑتا ہے تو اس کی قومی سیاسی اور ثقافتی تعمیر اور قومی نفسیاتی نشوونما تسلط پسندانہ سوچ کی وجہ سے مسخ ہو جاتی ہے۔ بڑھتی ہوئی بے چینی اور جنونی بالادستی کی فیصلہ سازی اور طرز عمل زیادہ سے زیادہ مضحکہ خیز ہوتا جا رہا ہے، غلطیاں دہرائی جا رہی ہیں، اور آخر میں یہ بالادستی برقرار نہیں رہ سکے گی اور یہ "عروج کے بعد زوال" کے انجام سے نہیں بچ پائے گی۔