16 اور 17 جون کو جنوبی افریقہ، سینیگال، زیمبیا اور دیگر افریقی ممالک کے سربراہان مملکت اور افریقی یونین کے گردشی چیئرمین پر مشتمل افریقی رہنماؤں کے وفد نے یوکرین اور روس کا دورہ کیا، دونوں ممالک کے رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کی، اور روس یوکرین تنازع کو کم کرنے اور خوراک کے بحران کا حل تلاش کرنے سمیت متعلقہ امور پر گہرا تبادلہ خیال کیا۔ یوکرینی رہنما کے ساتھ بات چیت کے بعد منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں، جنوبی افریقہ کے صدر ماٹامیلا رامفوسا نے کہا کہ افریقی وفد نے حصول امن مشن کو کندھے پر رکھ کر مذکورہ دورہ کیا۔ افریقہ روس۔یوکرین تنازع سے بہت متاثر ہوا ہے اور امید ہے کہ جلد از جلد تنازع کے خاتمے کو عمل میں لایا جائے گا. پریس کانفرنس میں ، رامفوسا نے تنازع کے خاتمے سے متعلق افریقی امن منصوبے کے تحت دس تجاویز پیش کیں ، جن میں سفارتی ذرائع سے امن مذاکرات کو عمل میں لانا اور روس اور یوکرین سے زرعی مصنوعات اور کھاد کی برآمد کو یقینی بنانا شامل ہے۔
افریقی رہنماؤں کے روس اور یوکرین کے مشترکہ دورے نے عالمی امن کے تحفظ کے لئے افریقہ کے عزم کو ایک بلند آواز سے اجاگر کیا ہے ، جسے دنیا بھر میں وسیع پیمانے پر توجہ ملی اور مثبت تبصروں کی صورت میں حوصلہ افزائی کی گئی ۔ جنوبی افریقی صدر کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ "یہ پہلا موقع ہے کہ افریقہ ہمارے براعظم سے باہر تنازعات کو حل کرنے کے لیے اکٹھا ہوا ہے" جو تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے 17 تاریخ کو کہا کہ روس یوکرین کے بحران کو حل کرنے کے لئے افریقی اور لاطینی امریکی ممالک کی تجاویز پر غور کرنے کے لئے تیار ہے۔
لوگوں کو یہ دیکھ کر خوشی ہوئی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ممالک یوکرین بحران کے سیاسی حل کو فروغ دینے کے عمل میں شامل ہو رہے ہیں، جس سے تنازع کے حل کے بارے میں بین الاقوامی برادری کے عمومی موقف کی عکاسی ہوئی ہے ، خاص طور پر زیادہ سے زیادہ انتظار کرو اور دیکھو کا موقف رکھنے والے ممالک نے واضح طور پر اپنے جنگ مخالف اور امن نواز موقف کا اظہار کرنا شروع کر دیا۔ یوں امریکہ اور مغرب کو ایک تنہا اور شرمناک مقام پر لا کھڑا کر دیا گیا ہے جنہوں نے شروع سے ہی دوسرے ممالک کو فریق چننے پر مجبور کیا تھا اور اب بھی آگ پر تیل چھڑک رہے ہیں ۔
روس یوکرین تنازع کے آغاز سے ہی امریکہ اور مغربی ممالک کی جانب سے روس پر جامع پابندیاں عائد کرنے کی صورت حال سے ایسا لگتا تھا کہ دنیا کے دیگر ممالک کے پاس صرف دو ہی آپشن ہیں: یا تو یوکرین کی حمایت کریں اور "آزادی" کے لیے آواز اٹھائیں، یا پھر روس کی حمایت کرتے ہوئے ایک بین الاقوامی "مجرم" بن جائیں. تنازع کے حل کے حوالے سے چین کا مستقل موقف "کہیں بھی جانبدار نہیں، صرف امن اور بات چیت کےساتھ"ہے! نتیجتاً چین کے موقف کو مغرب نے "تضاد" اور "انصاف کے نام پر انصاف مخالف" قرار دیا ہے۔ تاہم، جیسے جیسے تنازع بڑھتا جا رہا ہے، دنیا بھر میں زیادہ سے زیادہ لوگوں نے چین کے موقف کی درستگی کا احساس کرنا شروع کر دیا ہے: صرف مذاکرات کے ذریعے سیاسی حل ہی تنازع کو ختم کرنے کا واحد راستہ ہے۔ سب سے پہلے صحیح اور غلط کو بالائے طاق رکھ کر بیٹھ کر بات چیت کریں۔متعلقہ فریق ایک ماہ، ایک سال، دس سال تک بات کر سکتے ہیں، تاہم فوری ترجیح جنگ کو روکنا ہے، خون ریزی کو بند کرنا ہے اور امن کو ایک موقع دینا ہے۔
مشہور امریکی سیاست دان اور طبیعیات دان بیجمن فرینکلن نے ایک بار کہا تھا کہ "کبھی بھی کوئی اچھی جنگ نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی برا امن ہوتا ہے"۔ تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ جب افریقی رہنما نے روس یوکرین مذاکرات کو فروغ دینے کے لیے اپنا دورہ ختم کیا تو نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ نے ایک بار پھر خبردار کیا کہ " تنازع کو منجمد نہیں کیا جا سکتا اور یوکرین روس امن مذاکرات قبل از وقت نہیں ہونے چاہیں۔ امن منصفانہ ہونا چاہئے، اور امن تنازعات کو منجمد کرنے یا دشمن کے معاہدوں کو قبول کرنے سے متعلق نہیں ہوسکتا ہے". ظاہر ہے کہ مغربی ممالک امن نہیں بلکہ روس کے خلاف "اچھی جنگ" کو جیتنا چاہتے ہیں تاکہ مغرب کی یک قطبی بالادستی کو مزید مستحکم کیا جا سکے۔ لہٰذا اگرچہ امن کی آواز مضبوط سے مضبوط تر ہو رہی ہے، لیکن امن کی کرن ابھی بہت دور نظر آ رہی ہے۔
چین دنیا کا پہلا ملک ہے جس نے واضح طور پر یوکرین بحران کے سیاسی حل کی تجویز پیش کی ، اور صرف چین نے یوکرین کے بحران کے سیاسی حل پر پوزیشن پیپر جاری کیا۔ کچھ عرصہ قبل چینی حکومت کے نمائندہ خصوصی برائے یوریشین امور سفیر لی ہوئی نے روس ، یوکرین اور دیگر پانچ یورپی ممالک کا دورہ کیا تاکہ یوکرین بحران کے سیاسی حل پر تمام فریقوں سے بات چیت کی جا سکے جس پر دنیا کے کئی ممالک کی جانب سے مثبت ردعمل سامنے آیا۔ اگرچہ چین اور افریقہ سمیت امن قوتوں کی کوششوں کے باوجود جلد ٹھوس نتائج کا امکان نہیں ہے کیونکہ تنازع کے دونوں فریقوں کے خیالات اور موقف بہت مختلف اور ایک دوسرے سے کافی دور ہیں ، لیکن یہ تنازع کی سفارتی ثالثی میں ایک اہم قدم ہے۔ یہ قدم اٹھایا جانا چاہیے اور پھر شاید امن کو موقع ملے گا۔