یکم جولائی کو چین نے باضابطہ طور پر خارجہ تعلقات کے قانون کا نفاذ کیا۔ عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے بعد سے یہ چین کی جانب سے خارجہ امور سے متعلق پہلا بنیادی قانون ہے جو خارجہ امور کے لئے چین کی اہم پالیسیوں ، اصولوں ، موقف اور ادارہ جاتی نظاموں کی وضاحت کرتا ہے اور چین کے خارجہ تعلقات کی ترقی کے لئے مجموعی ضوابط تشکیل دیتا ہے۔ چین کی جانب سے خارجہ تعلقات کے قانون کا اجرا اور نفاذ خارجہ تعلقات کے میدان میں چین کی قانون پر مبنی حکمرانی کا ایک ٹھوس مظہر ہے، اور چین کے خارجہ امور سے متعلق قانون کی حکمرانی کے نظام کی تعمیر میں ایک اہم سنگ میل بھی ہے۔
اس وقت، بین الاقوامی صورتحال اور نظم و نسق میں پیچیدہ تبدیلیاں ہو رہی ہیں، دنیا افراتفری اور اصلاحات کے ایک نئے دور میں داخل ہو چکی ہے، اور چین کی ترقی کو زیادہ پیچیدہ بین الاقوامی صورتحال کا سامنا ہے. سفارت کاری کسی بھی ملک کے اہداف کا مرتکز مظہر ہے، اور خارجہ امور کا کام ادارہ جاتی منصوبہ ہے، جس کے لئے ملک کے تمام محکموں کی باہمی ہم آہنگی اور تعاون کی ضرورت ہے تاکہ خارجہ پالیسیوں اور حکمت عملی پر صحیح معنوں میں عمل کیا جا سکے. چین کی طرف سے جاری اور نافذ کردہ خارجہ تعلقات کے قانون نے ان اہم پالیسیوں اور پختہ اور مستحکم تصورات اورعمل کو قانون کی شکل میں
طے کیا ہے جنہیں ملک نے عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے بعد طویل عرصے تک اپنی سفارت کاری میں برقرار رکھا ہے ، اور ساتھ ہی ساتھ نئے دور میں چین کے خارجہ امور میں بنیادی اصولوں ، تصورات اور پالیسیوں کی عکاسی کی ہے جوکہ چین کی مستقل خارجہ پالیسی کی توثیق اور اعادہ ہے۔
مثال کے طور پر قانون کی چوتھی شق واضح کرتی ہے کہ چین خودمختار اور پرامن خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہے اور خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے باہمی احترام، باہمی عدم جارحیت، ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنے، مساوات اور باہمی فائدے اور پرامن بقائے باہمی کے پانچ اصولوں پر عمل پیرا ہے۔ چین پرامن ترقی کے راستے اور بیرونی دنیا کے لئے اوپن پالیسی نیز باہمی فائدے پر مبنی کھلی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ چین بین الاقوامی تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرنے کا حامی ہے اور بین الاقوامی تعلقات میں طاقت کے استعمال یا طاقت سے دھمکانے کی مخالفت کرتا ہے۔چین بالادستی اور طاقت کی سیاست کا مخالف ہے اور اس موقف پر قائم ہے کہ تمام ممالک چاہے بڑے ہوں یا چھوٹے، طاقتور ہوں یا کمزور، امیر ہوں یا غریب، سب برابر ہیں اور مختلف ممالک کے عوام کی طرف سے آزادانہ طور پر منتخب کردہ ترقی کے راستے اور سماجی نظام کا احترام کیا جانا چاہیئے. قانون کی انیسویں شق واضح کرتی ہے کہ چین اس بین الاقوامی نظام کا محافظ ہے،جس کا مرکز اقوام متحدہ ہے اور بین الاقوامی قوانین پر مبنی بین الاقوامی نظم و نسق کو برقرار رکھتا ہے، اور اقوام متحدہ کے منشور کے مقاصد اور اصولوں کی بنیاد پر قائم بین الاقوامی تعلقات کے بنیادی اصولوں کو برقرار رکھتا ہے.
یہ دیکھنا مشکل نہیں ہے کہ وہ بیشتر ممالک جو چین کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر چکے ہیں، بلخصوص ان ممالک کے لئے جو باہمی احترام، مساوات اور باہمی فائدے کی بنیاد پر چین کےساتھ دوستانہ تعاون پر مبنی تعلقات کو ترقی دے رہے ہیں، بلاشبہ یہ قانون چین کے ساتھ ان کے تعلقات کی ترقی کے لیے ایک بڑی اچھی خبر ہے۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان چند ممالک کے لیے جو اپنی بالادستی برقرار رکھنے اور چین کی پرامن ترقی کو بدنیتی سے دبانے میں مصروف عمل ہیں، یہ قانون چین کی جانب سے اپنے جائز مفادات کے تحفظ کے لیے ایک قانونی ہتھیار ثابت ہوگا۔
طویل عرصے سے امریکہ نے فوجی، اقتصادی اور سائنسی و تکنیکی شعبوں میں اپنی بالادستی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یکطرفہ پسندی اور ہارجیت کی سوچ پر عمل کرتے ہوئے اپنے گھریلو قوانین کی بنیاد پردوسرے ممالک کے خلاف اکثر یکطرفہ پابندیاں اور "لانگ آرم دائرہ اختیار" استعمال کیا ہے اور زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کے لئے نام نہاد "قانونی ذرائع" کا استعمال کیا ہے، جس کے نتیجے میں چین سمیت دیگر ممالک کی خودمختاری اور مفادات بلکہ بین الاقوامی نظم و نسق اور عالمی ترقی کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
حالیہ برسوں میں، چین کے خلاف امریکی اور مغربی مداخلت اور پابندیوں میں شدت آنے کے ساتھ ساتھ چین کی جانب سے مداخلت، پابندیوں اور "لانگ آرم دائرہ اختیار"کے خلاف نظام کی تعمیر اور قانون نافذ کرنے والے اقدامات کے مطالبے نے تیزی سے زور پکڑا ہے۔ چین کی جانب سے خارجہ تعلقات کے قانون کا اجرا اور نفاذ، جو چین کے خلاف غیر ملکی مداخلت اور پابندیوں کے خلاف جوابی اقدامات اور تعزیری قوانین اور ضوابط کو واضح طور پر بیان کرتا ہے، روک تھام، انتباہ اور ڈیٹرنس کا کردار ادا کرنے کے لئے سازگار ہے، اور چین کے جائز حقوق کے تحفظ کے لئے قانونی بنیاد بھی فراہم کرتا ہے۔ یہ نہ صرف قانون کی حکمرانی کے ذریعے چین کے قومی مفادات کے تحفظ کے لئے سازگار ہے، بلکہ بین الاقوامی انصاف کے بہتر تحفظ کے لئے بھی سازگار ہے.
اس وقت چین ، چینی طرز کی جدیدیت کے ذریعے چینی قوم کی عظیم نشاۃ ثانیہ کی تکمیل کے لئےجدو جہد کر رہا ہے۔ خارجہ تعلقات کے قانون کے اجرا اور نفاذ سے چین وسیع پیمانے، مزید گہری سطح اور بہتر معیار پر قانون کی حکمرانی کی سوچ اور طریقوں کے ذریعے خارجہ امور انجام دینے کے قابل ہو جائے گا، اور چینی خصوصیات کے حامل بڑے ملک کی سفارت کاری کی مستقل خوش آئند صورتحال تشکیل پاِئے گی ، جو یقیناً عالمی امن و استحکام اور عالمی گورننس میں مزید مثبت توانائی فراہم کرے گی اور مزید نئی خدمات سرانجام دے گی۔