4 جولائی کو ایران کی باضابطہ شمولیت کے ساتھ ہی شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک
کی تعداد بڑھ کر نو ہو گئی۔ چند ممالک تک محدود رکنیت کے بجائے ،ایس سی او ایک کھلے اور جامع "بڑے
خاندان" کی تعمیر کر رہا ہے۔ سلامتی، ترقی اور تعاون پر توجہ مرکوز کرنے والا یہ
ادارہ ایشیا، یورپ اور دنیا میں امن اور استحکام کے لئے مسلسل مثبت توانائی فراہم
کر رہا ہے.
اسی روز چینی صدر شی جن پھنگ نے بیجنگ میں شنگھائی تعاون تنظیم کے
رکن ممالک کے سربراہان مملکت کی کونسل کے 23 ویں اجلاس میں ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت
کی اور ایک اہم تقریر کی۔ شنگھائی تعاون تنظیم کی مستقبل کی ترقی کے پیش نظر صدر شی
نے گلوبل سکیورٹی انیشی ایٹو، گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو اور گلوبل سولائزیشن انیشی
ایٹو کو اس میں ضم کرکے پانچ نکاتی تجویز پیش کی۔ یہ سفارشات شنگھائی تعاون
تنظیم کی پائیدار ترقی کے لئے ایک واضح روڈ میپ فراہم کرتی ہیں۔
اپنے قیام کے
بعد سے گزشتہ 20 سالوں کے دوران شنگھائی سپرٹ کی رہنمائی میں شنگھائی تعاون تنظیم
نے مختلف خطوں کے ممالک، مختلف تہذیبی روایات اور مختلف ترقیاتی ماڈلز کو یکجا کیا
ہے اور کامیابی کے ساتھ گروہ بندی کے بجائے شراکت داری، تصادم کے بجائے مکالمے کی
ایک نئی قسم کی بین الاقوامی تنظیم کی ترقی کی راہ پر گامزن ہو گیاہے۔ شنگھائی
تعاون تنظیم کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کی تجویز سے لے کر "ایس سی او خاندان" کی
ترقی، سلامتی، تعاون، تہذیب اور عالمی گورننس کے تصور کی وضاحت اور عملی تعاون کے
اقدامات کا سلسلہ شروع کرنے تک، چین نے ایک بانی رکن کی حیثیت سے ہمیشہ شنگھائی
تعاون تنظیم کی ترقی کی رہنمائی اور فروغ میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔
آج کی
دنیا تبدیلیوں اور گہما گہمی سے بھر پور ہے. اتحاد یا تقسیم؟ امن یا تنازعہ؟ تعاون
یا تصادم؟ ایک بار پھر، یہ عصر حاضر کا ایک اہم سوال ہے. دنیا کی سب سے زیادہ آبادی
اور سب سے بڑی علاقائی تعاون تنظیم کی حیثیت سے شنگھائی تعاون تنظیم کی ذمہ داری ہے
کہ وہ وقت کے سوالات کے جوابات دے اور مختلف خطرات اور چیلنجز پر قابو پانے کے لئے
آگے بڑھے۔
سربراہ اجلاس میں چین نے مختلف ممالک کی ترقیاتی حکمت عملیوں اور
علاقائی تعاون کے اقدامات کے ساتھ "بیلٹ اینڈ روڈ" کی اعلی معیار کی مشترکہ تعمیر
کو مضبوط بنانے، تجارت اور سرمایہ کاری کو آزاد بنانے اور سہولت کاری کو فروغ دینے
کی وکالت کی اور دیگر متعددتجاویز پیش کیں جن میں شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک
میں قومی کرنسیوں میں لین دین کا حصہ بڑھانا، خودمختار ڈیجیٹل کرنسی میں تعاون کو
بڑھانا اور شنگھائی تعاون تنظیم کے ترقیاتی بینک کے قیام کو فروغ دینا شامل ہے۔
پاکستان کے سینٹر فار ساؤتھ ایشین اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر محمد
الحسن خان کا خیال ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک طویل عرصے سے شنگھائی
تعاون تنظیم کے ترقیاتی بینک کے قیام کے منتظر ہیں اور اگر اس پر عمل درآمد ہو جاتا
ہے تو یہ شنگھائی تعاون تنظیم کے ممالک کی معاشی اور سماجی خوشحالی اور ترقی کو
فروغ دینے کے لیے ایک بڑا اقدام ہوگا۔
اس وقت بین الاقوامی صورت حال میں گہری
تبدیلیاں آئی ہیں اور بعض مغربی ممالک دنیا میں خلل ڈال کر اپنا تسلط برقرار رکھنے
کے لیے گروہی تصادم کی فضا پیدا کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس شنگھائی تعاون تنظیم کی
جانب سے مساوات، یکجہتی، تعاون اور شراکت داری کے جذبے کی اس دور میں اشد ضرورت ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے ارکان کی بڑھتی ہوئی تعداد یوریشین براعظم اور دنیا میں
امن اور خوشحالی کو برقرار رکھنے میں مزید حوصلہ افزائی پیدا کرے گی اور عصر حاضر
کے سوالات کےلئے "ایس سی او کے جوابات" فراہم کرتی رہے گی۔