3 جولائی کو چینی صدر شی جن پھنگ نے تہذیبوں کے مابین تبادلوں اور باہمی سیکھنے کے حوالے سے تیسرے مکالمے کے نام اپنے تہنیتی پیغام میں ایک بار پھر مختلف تہذیبوں کے درمیان باہمی سیکھنے کے عمل اور باہمی احترام کی اہمیت پر زور دیا۔ صدر شی نے اس بات کی نشاندہی کی کہ مختلف تہذیبوں کے درمیان مساوی تبادلے اور باہمی سیکھنا انسانیت کو وقت کے مسائل کو حل کرنے اور مشترکہ ترقی کے حصول کے لئے طاقتور روحانی رہنمائی فراہم کر سکتا ہے۔ چین تمام فریقین کے ساتھ مل کر امن، ترقی، انصاف، جمہوریت اور آزادی جیسی انسانیت کی مشترکہ اقدار کو فروغ دینے، عالمی تہذیبی اقدام کو نافذ کرنے، تہذیبی تبادلوں کے ذریعے تہذیبی رکاوٹوں کو عبور کرنے، باہمی سیکھنے کے ذریعے تہذیبی تنازعات کو دور کرنے ، رواداری کے ذریعے تہذیبی برتری کے احساس کو ترک کرنے اور انسانی تہذیب کی ترقی کو فروغ دینے کے لئے مل کر کام کرنے کا خواہاں ہے۔
ایسی گہری وجوہات موجود ہیں جن کی بنا پر چینی رہنما مختلف تہذیبوں کے درمیان ہم آہنگ بقائے باہمی اور مشترکہ ترقی کی اہمیت پر زور دے رہے ہیں۔ سب سے پہلے، چین طویل تاریخ اور ثقافتی روایات کا حامل ایک ملک ہے، جو دوسروں کے احترام اور پرامن بقائے باہمی کی اقدار کے حوالے سے گہری جڑیں رکھتا ہے. چین کے تہذیبی تبادلوں کی تاریخ میں بہت سے شاندار باب رقم ہوئے ہیں ، جیسے شاہراہ ریشم ، جس نے مشرق اور مغرب کے مابین تہذیبوں کے تبادلے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ چین نے ہمیشہ پرامن بقائے باہمی کے سفارتی تصور پر عمل کیا ہے اور باہمی فائدے مند تعاون کے اصول کی وکالت کی ہے۔ گلوبلائزیشن کے اس دور میں، تمام ممالک ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، اور تہذیبوں کے مابین تعلق اور تعاون اہمیت اختیار کر گیا ہے. مختلف تہذیبوں کے ہم آہنگ بقائے باہمی پر چینی رہنماؤں کا زور عالمی معاملات میں چین کی فعال شرکت اور بنی نوع انسان کےہم نصیب معاشرے کی تعمیر کے لئے ایک ٹھوس کاوش ہے۔
اس وقت دنیا کثیر قطبیت کے تناظر میں گہری تبدیلیوں سے گزر رہی ہے۔ ممالک کے مابین باہمی ربط اور انحصار کی سطح دن بدن گہری ہوتی جارہی ہے ، اور تہذیبوں کے مابین تبادلے اور تعاون انسانی معاشرے کی ترقی کے لئے ایک اہم محرک قوت بن گئے ہیں۔ دوسری طرف تہذیبوں کے درمیان ٹکراؤ اور کشمکش بھی آج دنیا کو درپیش بڑے چیلنجوں میں سے ایک ہے۔ چینی رہنما نے مختلف تہذیبوں کے درمیان ہم آہنگ بقائے باہمی کی اہمیت پر زور دیا جس کا مقصد تہذیبوں کے مابین مکالمے اور تبادلوں کو مضبوط بنانا اور عالمی امن و استحکام کے لئے حل فراہم کرکے تہذیبوں کے مابین غلط فہمیوں اور اختلافات کو دور کرنا ہے۔
چینی رہنما شی جن پھنگ کی تقریر کو دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ اور سیاست دانوں کی جانب سے مثبت ردعمل ملا ہے اور اس تقریر کو دانشمندی اور گہری سوچ سے بھر پور قرار دیا گیا ہے، اور اس یقین کا اظہار کیا گیا ہے کہ اس دنیا میں متعدد تہذیبوں کے بقائے باہمی کے لیے یہ ایک اہم اقدام ہے ، یہ تقریر چین کے کھلے پن اور تہذیبی خود اعتمادی کو مکمل طور پر ظاہر کرتی ہے، اور عالمی تہذیب کے تبادلوں کو فروغ دینے میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اقوام متحدہ کے تہذیبی اتحاد کے اعلی نمائندے میگوئل اینگل موراتنوس نے کہا کہ وہ عالمی تہذیبوں کے مابین تبادلوں اور باہمی سیکھنے کو اہمیت دینے اور اس کی بھرپور حمایت کرنے پر صدر شی کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ میں صدر شی کے گلوبل سولائزیشن انیشی ایٹو سے کافی متفق ہوں، اس میں اقوام متحدہ کے تہذیبی اتحاد کے کام سے کافی مماثلت پائی جاتی ہے۔ انہوں نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ اس اقدام سے تہذیبوں کے درمیان افہام و تفہیم اور مکالمے کو تقویت ملے گی۔
27 مارچ 2014 کو یونیسکو ہیڈ کوارٹرز میں ایک اہم تقریر میں ، صدر شی جن پھنگ نے کہاتھا کہ "تہذیبوں کے حقیقی معنی کو سمجھنے کے لئے ، ہمیں مساوی اور رواداری پر مبنی رویہ برقرار رکھنا ہوگا۔ اگر کسی تہذیب کے ساتھ ناروا سلوک کیا جائے تو وہ نہ صرف دوسری تہذیب کے اسرار و رموز کو سمجھنے میں ناکام رہے گی بلکہ اس سے ہم آہنگ بھی نہیں رہ سکے گی۔ تاریخ اور حقیقت سے پتہ چلتا ہے کہ تکبر اور تعصب تہذیبوں کے مابین تبادلوں اور باہمی سیکھنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ مختلف تہذیبی پس منظر رکھنے والے ممالک کی مشترکہ کوششوں سے، باہمی تعلیم اور رواداری کے ذریعے انسانیت تکبر اور تعصب سے بالاتر ہو کر ایک دوسرے کو روشن کرے گی اور مشترکہ طور پر انسانی تہذیب کا ایک خوبصورت مستقبل تخلیق کرےگی۔