دس جولائی کو بیجنگ میں گلوبل شیئرڈ ڈیولپمنٹ ایکشن فورم کا پہلا اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہوا جس میں 158 ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندوں نے شرکت کی اور پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف اور دیگر کئی ممالک کے رہنماؤں نے آن لائن اور آف لائن تقاریر کیں۔ یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو چین کا پیش کردہ ایک ایسا خاص " گیت " ہے جسے مختلف ممالک مل کر گا رہے ہیں۔اسے مشترکہ ترقی کے دور کی سب سے مضبوط آواز کہا جا سکتا ہے، یہ اقدام بین الاقوامی برادری کے وسیع اتفاق رائے اور حمایت کا بھی بہترین مظہر ہے۔
ترقی دنیا کے تمام ممالک کا ابدی موضوع ہے، خاص طور پر آج، دنیا کو ایک صدی کی بے مثال بڑی تبدیلیوں کا سامنا ہے، اور امن اور ترقی کو شدید چیلنجز کا سامنا ہے. اس تناظر میں صدر شی جن پھنگ نے ستمبر 2021 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 76 ویں اجلاس کے عمومی مباحثے میں پہلی بار گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو کی تجویز پیش کی تھی اور گزشتہ سال گلوبل شیئرڈ ڈیولپمنٹ ایکشن فورم سمیت 32 عملی اقدامات تجویز کیے تھے۔ گزشتہ دو سالوں کے دوران چین نے گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو کو فروغ دینے اور اقوام متحدہ کے 2030 کے پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصول میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کیا ہے،یہی وجہ ہے کہ حالیہ فورم کا موضوع بھی "چینی انیشی ایٹو ، گلوبل ایکشن" رہا ۔ مختلف فریقوں کی شمولیت سے اب تک گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو کو اقوام متحدہ سمیت دیگر بین الاقوامی اور علاقائی تنظیموں اور 100 سے زائد ممالک کی حمایت حاصل ہو چکی ہے، اور 100 سے زائد منصوبوں پر عمل درآمد کیا گیا ہے، جس سے 60 سے زائد ترقی پذیر ممالک مستفید ہوئے ہیں۔
جنوری 2022 میں ، گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو کے گروپ آف فرینڈز کو عالمی ترقیاتی فریم ورک کے تحت گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو کے نفاذ کو فروغ دینے کے لئے ایک کلیدی اقدام کے طور پر باضابطہ قائم کیا گیا تھا۔ اب تک 100 سے زائد ممالک اور بین الاقوامی تنظیمیں اس کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کر چکی ہیں اور تقریباً 70 ممالک " گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو گروپ آف فرینڈز " میں شامل ہو چکے ہیں۔ چین نے اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام سمیت تقریباً 20 بین الاقوامی تنظیموں اور بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ مل کر عالمی ترقیاتی اور جنوب جنوب تعاون فنڈ اور چین -اقوام متحدہ امن و ترقیاتی فنڈ جیسے چینلز کے ذریعے امدادی منصوبے قائم کیے ہیں اور ان پر عمل درآمد کیا ہے جس سے ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے 100 سے زائد ممالک کے کروڑوں افراد مستفید ہو رہے ہیں۔
چین نے نہ صرف گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو کی تجویز پیش کی بلکہ اسے نافذ کرنے کے لیے بھر پور کوشش کی جا رہی ہے۔ مثال کے طور پر ، چین نے گریناڈا کو اپنا قومی اسٹریٹجک ترقیاتی منصوبہ تیار کرنے میں مدد کی ، اور زمبابوے کو خصوصی اقتصادی زونز اور ریاستی ملکیت کے انٹرپرائز میں اصلاحات کے بارے میں پالیسی مشورہ فراہم کیا۔ چین نے اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی ایجنڈے 2030 کو آگے بڑھانے کے لئے وقف دنیا کا پہلا سائنسی سیٹلائٹ لانچ کیا اور دنیا کے لئے ڈیٹا خدمات کھول دی ہیں ۔ چین کی تجویز پر 32 چینی اور غیر ملکی غیر سرکاری تنظیموں نے مشترکہ طور پر "تخفیف غربت بین الاقوامی غیر سرکاری تعاون نیٹ ورک" قائم کیا۔ ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں، اور چین کی بے لوث مدد کا واحد مقصد ترقی پذیر ممالک کے عوام کی ترقی کے حق کو فروغ دینا ہے۔
صدر شی جن پھنگ نے گلوبل شیئرڈ ڈیولپمنٹ ایکشن فورم کے پہلے اعلیٰ سطحی اجلاس کے نام اپنے تہنیتی خط میں اس بات پر زور دیاکہ سب سے بڑے ترقی پذیر ملک کی حیثیت سے چین نے ہمیشہ اپنی ترقی سے عالمی ترقی کے نئے مواقع پیدا کیے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بین الاقوامی صورتحال کیسے تبدیل ہوتی ہے ، چین نے ہمیشہ عالمی مشترکہ ترقی کو فروغ دینے اور ترقی پذیر ممالک کے ساتھ مواقع کا اشتراک کرنے پر عمل کیا ہے۔ عالمی مشترکہ ترقی کو فروغ دینے کی راہ پر چین نے اپنی دانش مندی اور طاقت کا نمایاں حصہ ڈالا ہے، جو ایک بڑے ملک کی ذمہ داری اور قول و فعل میں یکسانیت کی بہترین مثال ہے ، یہ ایک بڑی طاقت کے طور پر چین کی دنیا کے لیے گہری فکرمندی کا بھی عمدہ مظہر ہے۔