حالیہ برسوں میں جاپان کے نیٹو کے ساتھ تعلقات مزید گہرے ہوئے ہیں۔ گزشتہ سال جون میں جاپان کے وزیر اعظم کو پہلی بار نیٹو سربراہ اجلاس میں شرکت کے لئے مدعو کیا گیا تھا اور اسی سال نومبر میں جاپان نے باضابطہ طور پر نیٹو سینٹر آف ایکسیلینس فار کوآپریٹو سائبر ڈیفنس میں شمولیت اختیار کی تھی۔ نیٹو کے حالیہ سربراہ اجلاس میں چار "ایشیا بحرالکاہل شراکت داروں" (اے پی 4) جاپان، جنوبی کوریا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے ساتھ تعاون کو بڑھانا اور ایشیا بحرالکاہل کے علاقے میں نیٹو کی رسائی کی حکمت عملی پر عمل درآمد اہم موضوعات میں سے ایک رہا۔ کچھ تجزیہ کاروں نے نشاندہی کی ہے کہ نیٹو کو اپنی فوجی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لئے استعمال کرنے کی خاطر، جاپان نیٹو کی فوجی اور سیاسی لعنت کو ایشیا تک لے جانے کے لئے سخت محنت کر رہا ہے ، جو دوسری جنگ عظیم کے دوران جارحیت کی فاشسٹ جنگ شروع کرنے کے بعد ایشیا کے خلاف جاپان کی دوسری خیانت اور جرم ہوسکتا ہے۔
جاپان کے حوالے سے چین سمیت دیگر ایشیائی ممالک کے لوگ انتہائی پیچیدہ نفسیات کے حامل ہیں۔ تاریخی طور پر ، جاپان نے بار بار جارحانہ جنگوں کے ذریعے اپنے ایشیائی ہمسایوں کو نقصان پہنچایا ہے اور ناقابل معافی جنگی جرائم کا ارتکاب کیا تھا۔ اگرچہ یہ ایشیائی ممالک کا اتفاق رائے ہے کہ وہ تاریخ کا بوجھ ایک طرف رکھ کر فائدہ مند تعاون حاصل کریں۔ لیکن جاپان کے لیے ایشیائی عوام کے دلوں میں جاپان کی جانب سے چھوڑے گئے گہرے زخموں کا بھرنا نا ممکن ہے۔ حالیہ دنوں ، چینی اور ایشیائی عوام کی ناراض نظریں ایک بار پھر جاپان پر مرکوز ہیں جو اپنے ہمسایوں کی شدید مخالفت کے باوجود جوہری آلودہ پانی کو سمندر میں چھوڑنے کے لیے پرعزم ہے۔ انجان لوگوں کی نظر میں جاپانی لوگ صفائی ستھرائی اور ماحول کا خیال رکھنا پسند کرتے ہیں، جاپان کی سڑکیں انتہائی صاف ہیں، معمولی سا کچرا دیکھنا محال ہے۔ جاپانی شائقین بین الاقوامی میچ دیکھنے کے بعد اسٹیڈیم چھوڑنے سے قبل آس پاس موجود کچرا صاف کرتے ہیں، جو سوشل میڈیا پر بھی مقبول ویڈیو بن چکی ہے۔ لیکن یہ وہی جاپان ہے جو دنیا بھر کے لوگوں کے مشترکہ سمندروں کو کچرے کے ڈھیر کے طور پر استعمال کرتا ہے اور اس میں بڑی مقدار میں جوہری آلودہ پانی چھوڑنے کی تیاری کر رہا ہے جس سے لوگ جاپان کے متضاد رویے پر دنگ اور حیران رہ جاتے ہیں۔
اسی طرح، دنیا بھر میں جانوروں کے تحفظ سے وابستہ کارکنوں کے لئے، جاپان کے قول اور فعل کو سمجھنا اور بھی مشکل ہے. جاپانی فلم "وفادار کتا ہاچیکو" میں انسان اور جانور کے درمیان دلوں کو چھونے والی زندگی اور موت کے رشتے کی کہانی بیان کی گئی ہے اور فلم میں وفادار کتے ہاچیکو کا پروٹو ٹائپ مجسمہ اب بھی ٹوکیو کے ایک ریل وے اسٹیشن کے باہر نصب ہے جو دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے مقبول ترین مقامات میں سے ایک ہے۔تاہم دوسری جانب جاپان کی جانب سے سمندری وسائل کی بے دریغ تباہی اور نایاب سمندری حیات جیسے وہیل اور ڈولفن کا غیر قانونی قتل دنیا بھر میں جانوروں کے تحفظ کے حامی لوگوں اور متعلقہ تنظیموں کے دلوں میں ہمیشہ سے ایک مستقل درد رہا ہے۔ جاپان کے بدنام زمانہ ڈولفن بے میں مقامی لوگ اب بھی ڈولفن یا وہیل کو خوفزدہ کرکے تنگ خلیج میں لے جاتے ہیں اور ان کا اس وقت تک شکار کرتے ہیں جب تک کہ لہریں خون سے سرخ نہ ہو جائیں۔ سنہ 2009 میں ایک دستاویزی فلم "ڈولفن بے" منظر عام پر آئی جس میں اس خونی برائی کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا گیا۔ بین الاقوامی برادری کی طرف سے شدید مذمت اور احتجاج کے باوجود ، جاپان نے ہمیشہ چالاکی سے دلیل دی ہے کہ ڈولفن کا شکار کرنا ایک مقامی رواج ہے اور یہ مقامی ماہی گیروں کی بنیادی آمدنی ہے جبکہ وہیل کو سائنسی تحقیق، زندگی کے رازوں کو دریافت کرنے کے لیے قتل کیا جاتا ہے تاکہ اپنے ظالمانہ اور وحشیانہ اعمال کا جواز پیش کیا جا سکے۔
"صحیح اور غلط کے ادراک اور نیکی اور بدی میں تمیز کرنے " کا بنیادی اخلاقی تقاضہ جاپان کے لئے ہمیشہ سے ایک بہت بڑا مسئلہ رہا ہے۔ بوشیڈو کی روح ، جو جاپان کے اخلاقی اور روحانی ستون میں سے ایک ہے ، اس بات پر زور دیتی ہے کہ صحیح یا غلط سے قطع نظر اپنا فرض ادا کرنا سب سے اہم ہے۔ جاپانی تاریخ کی نصابی کتابیں ہوں، ادبی تخلیقات ہوں، بوشیڈو فلمیں ہوں، یا امریکی فلم اسٹار ٹام کروز کی فلم "دی لاسٹ سمورائی" ہو، یہ سب واضح طور پر بظاہر درست لیکن حقیقت میں مضحکہ خیز موقف کا اظہار کرتی ہیں، اور چین کے خلاف جارحیت کی جنگ میں جاپانی فوج کی طرف سے کیے گئے نانجنگ قتل عام جیسے بہت سے وحشانہ طرز عمل کے پیچھے، اس شیطانی اخلاقی نقطہ نظر کا بھوت ہے۔
صرف ایک کرہ ارض ہے، یہ سب کا مشترکہ گھر ہے، اور لوگوں کے پاس جاپان سے مطالبہ کرنے کا پورا جواز ہے: جاپان صحیح اور غلط کا ادراک کرے ، نیکی اور بدی میں تمیز کرے، صحیح راستے پر چلے، عالمی اور علاقائی امن اور حیاتیاتی ماحول کے لئے اچھے کام کرے، اور ایسے برے کام کرنا بند کرے جو مسلمہ اصولوں اور اخلاقی قدروں کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور آنے والی نسلوں کو نقصان پہنچاتے ہیں. امید ہے کہ جاپان اس سادہ اور واضح اپیل کو سمجھے گا، حالانکہ ایسا لگتا ہے کہ یہ ان کے لیے ہمیشہ ایک بہت بڑا مسئلہ رہا ہے۔