یوکرین کی مسلح افواج کی جانب سے چند دن قبل روس پر گولہ باری میں کلسٹر بم کے استعمال سے ایک روسی صحافی ہلاک ہو گیا۔ روسی وزارت خارجہ کی ترجمان زخارووا کا کہنا تھا کہ ہلاک ہونے والا صحافی اس وقت یوکرین میں امریکہ کی جانب سے فراہم کردہ کلسٹر بم کے استعمال کے حوالے سے انٹرویو کر رہا تھا۔ جولائی میں یوکرین کو جنگ میں استعمال کے لئے امریکہ کی جانب سے کلسٹر بم کی فراہمی کے بعد کسی صحافی کی یہ پہلی ہلاکت ہے ۔
کلسٹر بم سے مراد ایک بڑے بم میں کئی چھوٹے بموں کو لوڈ کرنا اور پھر اس کے مہلک اثر کو بڑھانے کے لئے کسی بڑے علاقے کو دھماکے سے تباہ کرنا ہے ۔ تاہم کچھ چھوٹے بم موقع پر نہیں پھٹتے اور اکثر جنگ ختم ہونے کے بعد عام شہریوں کو ہلاک کرتے ہیں۔ کلسٹر بموں کی ممانعت سے متعلق بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ کنونشن یکم اگست 2010 کو نافذ العمل ہوا اور اب تک 120 سے زائد ممالک نے اس پر دستخط کیے ہیں۔ دنیا میں کلسٹر بموں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں لاؤس، ویتنام، کوسووو، افغانستان، عراق اور لبنان شامل ہیں۔
امریکی وزارت دفاع کے اعدادو شمار کےمطابق، کلسٹر بموں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملک لاؤس میں اب تک 80 ملین امریکی کلسٹر بموں کو ناکارہ نہیں بنایا گیا ۔ جنگ کے خاتمے کے بعد سے آج تک ایک فیصد سے بھی کم بارودی مواد صاف کیا گیا ہے جس سے اب تک 20 ہزار کے قریب شہری ہلاک اور بڑی تعداد میں معذور ہو چکے ہیں۔ اسلحے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ لاؤس کو ان بموں سے پاک کرنے میں 100 سال لگ سکتے ہیں۔ ریڈ کراس سوسائٹی کے مطابق کلسٹر بموں کا سب سے زیادہ شکار بچے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، افغانستان میں جنوری 2022 اور جون 2023 کے درمیان جنگ کی باقیات یا بارودی سرنگوں کے دھماکوں کے 541 واقعات میں 640 افغان بچے ہلاک یا زخمی ہوئے، جو شہری ہلاکتوں کا تقریبا 60 فیصد بنتاہے۔
اسی وجہ سے کینیڈا، اسپین، جرمنی، برطانیہ سمیت امریکہ میں ڈیموکرٹک پارٹی کی کئی شخصیات امریکہ کی جانب سے یوکرین کو کلسٹر بم فراہم کرنے کی مخالف ہیں۔ امریکی اقدام کے جواب میں روس نے واضح کیا ہے کہ اگر یوکرین کلسٹر بم استعمال کرتا ہے تو روس جوابی کارروائی کے لیے وہی ہتھیار استعمال کرے گا اور اس دوران بے گناہ شہریوں کی ہلاکتوں کا ذمہ دار امریکہ ہی ہو گا ۔ روس یوکرین تنازعے کی موجودہ صورتحال میں امریکہ اور مغرب کی مسلسل مداخلت کے باعث فوجی اہلکاروں اور شہریوں سمیت ہلاکتوں میں اضافہ جاری رہے گا اور دونوں فریقوں کی جانب سے کلسٹر بموں کے استعمال سے پیدا ہونے والی صورتحال سنگین حد تک مزید بگڑے گی ۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک سال قبل بائیڈن انتظامیہ میں وائٹ ہاؤ س کی اس وقت کی پریس سیکریٹری جین پیسکی نے کہا تھا کہ کلسٹر بم کا استعمال جنگی جرم ہوگا۔ روس یوکرین تنازعے کے ابتدائی دنوں میں نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ نے روس کی جانب سے کلسٹر بموں کے مبینہ استعمال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'یہ ایک ظلم ہے، یہ غیر انسانی اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔' لیکن اب، جب امریکہ نے یوکرین کو وہی ہتھیار فراہم کیے ہیں اور یوکرین ان کا استعمال کررہا ہے، تو نیٹو خاموش ہے بلکہ یہاں تک کہ کسی تشویش کا اظہار بھی نہیں کیا گیا. اس واضح "دوہرے معیار" پر بین الاقوامی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے شدید عدم اطمینان اور مخالفت کااظہار کیا ہے۔
درحقیقت امریکہ کی جانب سے یوکرین کو کلسٹر بموں کی فراہمی کا مقصد واضح ہے۔ ایک طرف، یوکرین کو گولہ بارود کی فراہمی روس-یوکرین تنازعے کے ذریعے روس کی طاقت کو کمزور کر سکتی ہے اور دوسری طرف اگر کلسٹر گولہ بارود سنگین نتائج کا باعث بنتے بھی ہیں تو دنیا کے سامنےاس کی ذمہ داری امریکہ پر نہیں بلکہ یوکرین پر ہوگی اور یوکرین کلسٹر بموں کا استعمال کرنے والے ملک کے طور پر بین الاقوامی تنقید کا شکار ہو گی.
کچھ دن پہلے جب امریکہ کے نائب وزیر دفاع کولن کار سے پوچھا گیا کہ کیا امریکہ کی جانب سے فراہم کردہ کلسٹر بموں سے شہریوں کو زیادہ نقصان نہیں پہنچے گا تو انہوں کہا کہ کلسٹربموں کے استعمال سے ہونے والے نقصانات کے مقابلے میں روس کی جیت بدتر ہوگی۔
حقیقت تو یہ ہے کہ امریکہ کے ان کلسٹر بموں نے معصوم انسانی جانوں کو بارود میں اڑانے سے پہلے بعض مغربی پالٹیشنز کے ضمیر کو اڑا کر رکھ د یا ہے اور ایک بار پھر دنیا کے سامنے امریکی سفارت کاری میں منافقت کا پردہ چاک کردیا ہے۔