رن آئی ریف واقعے کے پیچھے کون ہے؟

2023/08/09 15:38:18
شیئر:

 


رن آئی ریف قدیم زمانے ہی سے چین کے نان شا جزائر کا حصہ رہی ہے۔ 9 مئی 1999 کو فلپائن کی بحریہ کا ایک خستہ حال ٹینک لینڈنگ جہاز،رن آئی ریف کی طرف روانہ ہوا ، دعوی کیا گیا کہ "جہاز کا نچلا حصہ لیک ہو رہا تھا اور اسے رن آئی ریف کے شمال مغربی حصے میں رکناپڑا تھا"۔  درحقیقت ریف کے کنٹرول"  کی کوشش میں فوجیوں کو باری باری اس پھنسے ہوئے جہاز تک بھیجا گیا۔ اس کے بعد سے فلپائن کی جانب سے بار بار اس جنگی جہاز کو ہٹانے کا وعدہ کیا گیا لیکن اسے پورا نہیں کیا گیا۔ فلپائن کا یہ رویہ بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی ہے اور  بحیرہ جنوبی چین میں فریقین کے طرز عمل سے متعلق چین اور آسیان ممالک کے دستخط شدہ اعلامیے کی خلاف ورزی بھی ہے۔

کچھ عرصے سے چین نے رن آئی ریف کے معاملے پر فلپائن سے متعدد مواقع پر بات چیت کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ فلپائن کی طرف سے غیر قانونی طور پر یہاں موجود اس جنگی جہاز میں تعمیراتی سامان منتقل نہ کیا جائے ۔ چین کی جانب سے یہ تجویز بھی دی گئی کہ دونوں فریق جلد از جلد رن آئی ریف کی صورتحال پر قابو پانے کے اقدامات پر تبادلہ خیال کریں۔ تاہم ، فلپائن نےچین کے ان تمام مطالبات و تجاویز کو نظر انداز کرتے ہوئے تعمیراتی سامان اس جہاز تک پہنچانا جاری رکھا۔ ساتھ ہی امریکہ نے فلپائن کے اس رویے کی حمایت کی اوراسے  اکسایا یہاں تک کہ سمندر میں تعاون کے ساتھ مدد فراہم کرنے کے لیے فوجی طیارے اور جنگی جہاز بھی بھیجے گئے اور چین کو دھمکی دینے کے لیے 'امریکہ فلپائن باہمی دفاعی معاہدے' کا بھی استعمال کیا گیا۔یہ وہ وجوہات ہیں جن کے باعث معاملات اس نہج تک آئے ہیں۔اگر امریکی پانیوں میں غیر ملکی جہاز غیر قانونی طور پرموجود ہیں تو امریکہ کیا کرے گا اس کا تصور مشکل نہیں ہے۔ اگر غیر ملکی بحری جہاز امریکہ کے پانیوں سے باہر نہیں نکلیں گے تو امریکہ کیا اقدامات کرے گا؟

چین اور فلپائن کے درمیان رن آئی ریف پر تنازع اس وقت سامنے آیا ہے کہ جب پس منظر میں امریکہ ،فلپائن پر  غالب آنے کے لیے اپنی کوششوں کو تیز کر رہا ہے اور چین پر قابو پانے کے لیے نام نہاد "انڈو پیسیفک حکمت عملی" کو فروغ دے رہاہے۔ فلپائن کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ اگر امریکہ اسے 'بندوق کے طور پر استعمال' کرتا ہے یا چین فلپائن تعلقات کو 'ہائی جیک ' کرنے کی اجازت دیتا ہے تو یہ کبھی بھی اس کے اپنے مفاد میں نہیں ہوگا اور یہ علاقائی امن و سلامتی کو بھی نقصان پہنچائے گا۔ چین اور آسیان ممالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ ثابت قدم رہتے ہوئےبحیرہ جنوبی چین میں ضابطہ اخلاق پر مشاورت کو عملی طور پر فروغ دیں، غیر ملکی افواج کی مداخلت کی سختی سے مخالفت کریں اور بحیرہ جنوبی چین کے مسئلے کو حل کرنے کے اختیارات خود علاقائی ممالک کے پاس محفوظ رکھیں۔