جاپان کی لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے نائب صدر اور سابق وزیر اعظم تارو آسو نے حال ہی میں چین کے تائیوان کے علاقے کا دورہ کیا تھا جس کے دوران انہوں نے تائیوان کو "سواد اعظم چین کے ساتھ جنگ کے لئے ذہنی طور پر تیار رہنے" کی ترغیب دی ۔ان کی اس ترغیب پر مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے سخت تنقید کی ہے ۔ تائیوان کی رائے عامہ نے اس پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ آسو نے نہ صرف ماضی میں تائیوان کی جاپانی نوآبادیاتی حکمرانی کے لئے معافی نہیں مانگی بلکہ تائیوان کو فوجی طاقت کو بڑھانے اور جنگ کی تیاری کرنے کی ترغیب بھی دی جس کا مقصد "تائیوان کے عوام کو آگ کے شعلوں میں دھکیلنا ہے ۔
19 ویں صدی کے وسط میں ، جاپان نے فوجی توسیع کا ایک سلسلہ نافذ کیا تھا ۔ 1895 میں چین کی چھنگ شاہی حکومت کو چین - جاپان جنگ میں شکست ہوئی اور اسے ایک معاہدے پر دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں جاپان نے تائیوان اور پھنگ ھو جزائر پر قبضہ کیا اور ان گنت جرائم کا ارتکاب کرتے ہوئے 50 سالہ نوآبادیاتی حکمرانی کا آغاز کیا۔ نامکمل اعداد و شمار کے مطابق ، جاپانی نوآبادیاتی دور میں تائیوان کے تقریبا 600،000 افراد ہلاک کیے گئے ۔ تائیوان کو نوآبادیات بنانے اور چین پر حملہ کرنے میں جاپان کی جانب سے کیے جانے والے سنگین جرائم کے پیش نظر 1972 میں جاری ہونے والے چین جاپان مشترکہ اعلامیے میں جاپانی جارحانہ جنگ سے چینی عوام کو پہنچنے والے بھاری نقصان کی گہری عکاسی کی گئی تھی۔جاپان نے چین کے اس موقف کو مکمل طور پر سمجھا اور اس کا احترام کیا کہ تائیوان چین کی سرزمین کا اٹوٹ حصہ ہے۔ جاپان کے ایک سابق وزیر اعظم کی حیثیت سے آسو جاپانی حکومت کی چین کے ساتھ وابستگی اور وعدے سے بے خبر نہیں ہو سکتے۔ آسو کی طرف سے ایک چین کے اصول اور چار چین جاپان سیاسی دستاویزات کی روح کے منافی خطرناک بیانات نے چین اور جاپان کے تعلقات کے لیے مزید مشکلات پیدا کر دی ہیں۔
اگر کچھ جاپانی سیاست دانوں کے ذہن اب تک 100 سال پہلے کی طرح سوچتے ہیں اور وہ نوآبادیاتی انداز سے چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے رہنا چاہتے ہیں، تو جلد یا بدیر وہ خود ہی اس خطرناک کھیل کا شکار ہوںگے کیوںکہ چین کا مکمل قومی اتحاد کا حصول ایک ناقابل تسخیر تاریخی رجحان ہے۔