ہوائی میں جنگل کی آگ کے دھویں کے پس منظر میں 19 اگست کو پہلی امریکہ-جاپان-جنوبی کوریا سربراہی اجلاس کیمپ ڈیوڈ میں ختم ہوا۔ وائٹ ہاؤس کی ویب سائٹ پر موجود معلومات کے مطابق تینوں ممالک کے رہنماؤں نے صرف پریس کانفرنس میں 17 بار ’چین‘ کا ذکر کیا۔ سربراہی اجلاس کے جاری کردہ تین بیانات نے آبنائے تائیوان اور بحیرہ جنوبی چین سمیت مسائل کو بڑھاوا دیا، "سیکیورٹی اضطراب" کو بیچا، مختلف فریقوں کو "خطرات کا جواب دینے" پر اکسایا، اور چین کے اندرونی معاملات میں صریح مداخلت کی۔
اس بار دو ایشیائی "چھوٹے بھائیوں" یعنی جاپان اور جنوبی کوریا کو ملاقات کے لیے کیمپ ڈیوڈ بلانے پر امریکہ کے ارادوں کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ یہ محض اس لیے ہے کہ امریکہ مختصر مدت میں نیٹو کا "ایشیائی ورژن" نہیں بنا سکتا اس لیے وہ خصوصی سفارتی شائستگی کے ذریعے جاپان اور جنوبی کوریا پر فتح حاصل کرنا چاہتاہے اور اس کے لیے پہلے "نیٹو کا منی ورژن" بنانا چاہتا ہے جس کے لیے وہ نام نہاد "انڈو پیسیفک حکمت عملی" کو فروغ دے گا۔ جاپان کی وزارت خارجہ کی بین الاقوامی انٹیلی جنس ایجنسی کے سابق ڈائریکٹر سونزاکی کیو نے نشاندہی کی ہے کہ " جاپان اور جنوبی کوریا کو تصادم میں شامل کرنے کے لیے استعمال کرنے کے امریکی عزائم سب کو معلوم ہیں ۔"
امریکی محاذ آرائی کا اصل ہدف کون ہے؟ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ حالیہ برسوں میں، امریکہ نے غلطی سے چین کو اپنے "اہم ترین حریف" کے طور پر بیان کیا ہے اور چین کو مکمل طور پر قابو میں رکھنے اور دباؤ میں لانے کی کوشش کی ہے ۔ تو، کیا یہ سربراہی اجلاس امریکہ کو "لٹل ایشیا پیسیفک نیٹو" بنانے کا ہدف حاصل کرنے میں واقعی مدد کر سکتا ہے؟
کچھ تجزیہ کاروں نے نشاندہی کی ہے کہ امریکہ، جاپان اور جنوبی کوریا میں اگلے سال عام انتخابات ہوں گے سو یہ سربراہی اجلاس ایک "سیاسی شو" کی طرح ہے اور نتائج کی دستاویز انتخابی سیاست کے لیے ایک علامتی حلف کی طرح دکھائی دیتی ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ امریکہ، جاپان اور جنوبی کوریا کے کیمپ ڈیوڈ سربراہی اجلاس میں تعاون کی بات تو کی گئی لیکن در حقیقت وہ ایشیا پیسیفک میں بحران پیدا کرنا چاہتے تھے جس کی خطے کے ممالک کی جانب سے سخت مخالفت کی جانی تھی۔ امریکہ کی جانب سے "لٹل ایشیا پیسیفک نیٹو" کے قیام کی کوشش ناکامی سے دوچار ہے، کیونکہ یہ خطے کے لوگوں کے امن اور ترقی کے بنیادی مطالبات سے انحراف کرتی ہے ۔ امن پسند ممالک اور خطوں کے لوگ کسی بھی "چھوٹے دائرے" کی بھرپور مزاحمت کریں گے جو تقسیم اور تصادم کو جنم دے۔