جاپان کے ماحول دشمن اقدام کو روکنے کے لیے عالمی تعاون اور اقدامات ناگزیر ہیں

2023/08/24 17:22:11
شیئر:

حالیہ برسوں میں جاپان کے فوکوشیما دائیچی نیوکلیئر پاور پلانٹ سے جوہری آلودہ پانی کے اخراج کے مسئلے  نے بین الاقوامی برادری میں بڑے پیمانے پر تشویش اور بحث کو جنم دیا ہے۔ دنیا بھر کے سائنسدانوں کی جانب سے معقول تجاویز کے باوجود جاپانی حکومت اور متعلقہ کمپنیوں نے جوہری آلودہ پانی کو  سمندر میں چھوڑنے پر اصرار کیا جس پر وسیع پیمانے پر سوالات اٹھائے گئے اور  خود غرضی پر مبنی جاپان  کے اس  منصوبے اور ارادے کی مذمت کی گئی۔افسوس کی بات ہے کہ  24 تاریخ کو جاپان نے باضابطہ طور پر انسانیت کے مشترکہ وطن ،سمندر میں جوہری آلودہ پانی چھوڑنا شروع کر دیا ۔اس انتہائی غیر ذمہ دارانہ عمل  اورماحولیات اور انسانی صحت کے لیے اس  کے ممکنہ بڑے خطرے کے پیش نظر  ،جاپان کے اس جنونی اقدام کو روکنے کے لیے عالمی تعاون اور  انسدادی اقدامات کی ضرورت ہے۔

درحقیقت مختلف ممالک کے سائنس دانوں نے طویل عرصے سے جوہری آلودہ پانی سے نمٹنے کے لیے کئی معقول طریقے تجویز کیے ہیں۔ مثال کے طور پر، جذب کرنے والی مائع ایلومینیم سے آلودہ پانی میں تابکار مادوں کو الگ کیا جائے، اس طرح سمندری ماحولیات کو پہنچنے والے  نقصان کو کم کیا جا سکتا ہے۔دوسرا طریقہ  یہ ہے کہ گہرے زیر زمین انجیکشن کے ذریعہ زیر زمین پرت میں علاج شدہ جوہری آلودہ پانی کو محفوظ طریقے سے ذخیرہ کیا جائے۔  ایک  تجویز یہ بھی ہے کہ مرتکز جمنے کا طریقہ استعمال کیا جائے جس میں آلودہ پانی میں تابکار مواد کو مرکوز کیا جاتا ہے اور پھر ٹھوس کیا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ یہ طریقہ بھی    ہے کہ جوہری فضلے کو اعلی درجہ حرارت پر گرم کیا جاتا  ، جس سے یہ بخارات کی صورت  بن جاتا اور اس سے تابکار مواد کو ہٹا دیا جاتا ۔ یہ طریقے نہ صرف ماحولیاتی خطرات کو کم کرتے ہیں بلکہ انسانی صحت کے تحفظ میں بھی مدد دیتے ہیں، لیکن  افسوس بات یہ ہے   کہ جاپانی حکومت اور متعلقہ کمپنیوں نے  سب سے کم لاگت اور خطرناک ترین  طریقہ اختیار کیا جو  براہ راست  اس آلودہ پانی کا سمندر میں اخراج ہے  اور یوں  خود غرضی اور غیر ذمہ داری پر مبنی جاپان کے  اس اقدام نے دنیا کو ایک  تاریخی ماحولیاتی بحران میں دھکیل دیا ہے۔

 ایک طرف جاپان جوہری فضلے کو ٹریٹ کرنے کی لاگت کو کم کرنے کی امید رکھتا ہے۔ دوسری جانب بجلی کی بڑھتی ہوئی قلت کے جواب میں جاپانی حکومت نیوکلیئر پاور پلانٹ کے حادثات کے ڈر کے باوجود نیوکلیئر پاور پلانٹس کی تعمیر دوبارہ شروع کرنے  پر غور کر رہی ہے ۔لیکن جوہری آلودہ پانی سے کیسے نمٹا جائے ،اس کا جواب اب یہی دیا جائے گا کہ اسے سمندر میں بہا دیا جائے  کیوں کہ فوکوشیما کا آلودہ پانی کا سمندر میں اخراج ، مستقبل میں اسی طرح کے جوہری آلودگی کے حادثات سے نمٹنے کے لیے ایک مثال بن جائے گا۔ اگر جوہری آلودہ پانی کو سائنسی طور پر ماحول دوست  لیکن مہنگے طریقوں کے مطابق ٹریٹ کیا جاتا ہے تو اس سے مستقبل میں جوہری توانائی کی  سرمایہ کاری میں اضافہ جاری رکھنے کے بارے میں  جاپانی عوام کے  شکوک و شبہات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

تاہم ، اس طرح کے طریقوں سے سمندری ماحولیاتی نظام طویل مدتی تابکاری  سے  آلودہ ہوسکتا ہے ، جس سے سمندری  مخلوقات اور انسان کی بقا کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ماضی کی  قدرتی آفات سے لے کر آج کی "انسانی ساختہ آفات" تک، جاپان کا یہ اقدام ایک بری مثال قائم کرے گا کہ اس کے اپنے حادثات کے نتائج تمام بنی نوع انسان کا مشترکہ ماحول برداشت کرے. جاپان کا انتہائی غیر ذمہ دارانہ فیصلہ نہ صرف عالمی ماحول کے لیے سنگین نتائج لائے گا بلکہ عالمی ماحولیاتی گورننس سسٹم کی تاثیر کو بھی کمزور کرے گا۔

جاپان کی جانب سے جوہری آلودہ پانی کے اخراج پر چین سمیت بین الاقوامی برادری کی جانب سے بڑے پیمانے پر تنقید کی جا رہی ہے۔ بین الاقوامی برادری عام طور پر یہ سمجھتی ہے کہ جوہری آلودگی سے نمٹنا ایک عالمی مسئلہ ہے جس کا فیصلہ  صرف جاپان  نہیں بلکہ تمام ممالک کی مشترکہ کوششوں کی صورت میں ہے۔ جاپان کے خود غرض اور غیر ذمہ دارانہ رویے کے پیش نظر عالمی تعاون کی بنا پر مکمل بائیکاٹ ناگزیر ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کی کوئی  سرحد نہیں  ہوتی ، اور سمندری ماحولیات کی تباہی بھی انسانی معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کرے گی۔ لہٰذا بین الاقوامی برادری کو باہمی تعاون کو مضبوط بنانا چاہیے اور مشترکہ طور پر جوہری آلودہ پانی سے نمٹنے کے لیے مزید سائنسی اور معقول حل تلاش کرنا چاہیے تاکہ سمندری ماحولیاتی نظام کی پائیدار ترقی اور بنی نوع انسان کی مجموعی صحت کا تحفظ کیا جا سکے۔