28 اگست کو چین کے وزیر تجارت وانگ وین ٹاؤ نے چین کے دورے پر آئی ہوئی امریکی وزیر تجارت جینا ریمنڈو سے بیجنگ میں ملاقات کی اور دونوں فریقوں نے چین امریکہ اقتصادی اور تجارتی تعلقات اور بالی میں چین امریکہ سربراہ اجلاس کے اہم اتفاق رائے پر عمل درآمد سے متعلق مشترکہ تشویش کے متعلقہ امور پر منطقی، واضح اور تعمیری بات چیت کی۔ فریقین نے ایک نیا بزنس ایشو گروپ قائم کرنے پر اتفاق کیا جس میں دونوں ممالک کے سرکاری حکام اور کاروباری نمائندے شریک ہونگے اور سال میں دو بار نائب وزارتی سطح پر بات چیت کی جائے گی۔ فریقین نے ایکسپورٹ کنٹرول انفارمیشن ایکسچینج میکانزم کو فعال کرنے پر بھی اتفاق کیا تاکہ تجارتی اور معاشی امور پر باقاعدگی سے بات چیت کی جاسکے۔
یہ کہا جا سکتا ہے کہ مذاکرات کے دوران چین اور امریکہ کے درمیان کئی اہم نتائج برآمد ہوئے ہیں۔امریکی خبر رساں نیٹ ورک سی این این نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ نیا مواصلاتی چینل امریکہ اور چین کی حکومتوں اور کاروباری شعبوں کو "تجارت اور سرمایہ کاری کے مسائل کے حل تلاش کرنے کے طریقوں پر بات چیت کرنے" میں مدد دے گا ۔اس وقت چین اور امریکہ کے تعلقات میں سنگین چیلنجز موجود ہیں، امریکہ میں چین مخالف قوتوں کی جانب سے "ڈی کپلنگ اور رابطہ توڑنے" کا شور زوروں پر ہے اور مختلف شعبوں میں دوطرفہ تعاون میں مشکلات کا سامنا ہے ، اس پس منظر میں، دونوں فریقوں نے ایک بار پھر وہ نتائج حاصل کیے ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ فریقین اب بھی تعاون کو برقرار رکھنے اور جیت جیت کے ذریعے نتائج حاصل کرنے کی مضبوط خواہش اور ضرورت رکھتے ہیں، اور باہمی احترام کی بنیاد پر مواصلات کے ذریعے مخصوص خدشات کو بھی حل کرسکتے ہیں. یقینا اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ چین کے خلاف مسلسل جبری اقدامات اور شدید دباؤ کے بعد امریکہ کو آہستہ آہستہ چین امریکہ تعلقات اور اپنے آپ سمیت دنیا کے لیے اس تعاون کی اہمیت کا احساس ہو رہاہے۔
تاہم، کیا چین اور امریکہ کے درمیان اقتصادی اور تجارتی تعلقات بحران کے خطرناک زون سے نکل سکتے ہیں؟اس کے لئے دونوں فریقوں کی جانب سے دور اندیشی اور صاف گوئی کی ضرورت ہے۔خاص طور پر امریکہ کو "کہنا کچھ اور کرنا کچھ" کے عمل کے بجائے ، "ڈی رسکنگ" کی آڑ میں چین کے خلاف برآمدی کنٹرول کے اقدامات کا غلط استعمال بند کرنا ، چین کے خلاف امتیازی پالیسیوں کو ترک کرنا اور "چت بھی اپنی پٹ بھی اپنی" کے تسلط پسندانہ انداز کو ختم کرنا چاہیے۔ امریکہ کو چاہیے کہ وہ "چین سے ڈی کپلنگ کی کوشش نہ کرنے" کے وعدوں پر صحیح معنوں میں عمل درآمد کرے اور "خطرات پیدا کرنے" کے بجائے "خطرات کو دور کرنے" کی پالیسی اپنا ئے ۔
چین امریکہ اقتصادی اور تجارتی تعاون میں مختلف چیلنجوں کا سامنا کرتے ہوئے چین نے بارہا اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی اور تجارتی تعاون کے لئے پالیسی کے اعتبار سے ایک اچھا ماحول پیدا کرنے اور دوطرفہ تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لئے امریکہ کے ساتھ مل کر کام کرنے کا خواہاں ہے۔ اپنے دورے کے موقع پر محترمہ جینا ریمونڈو نے یہ بھی کہا کہ چین اور امریکہ کے لیے مستحکم اقتصادی تعلقات بہت اہم ہیں اور 'یہ دونوں ممالک کے مفاد اور دنیا کی توقعات کے عین مطابق ہیں ۔تاہم منافقت امریکہ کی ایک عادت بن چکی ہے ۔ چین اور امریکہ نے اس سے پہلے بھی رابطے اور تبادلے کے متعدد میکانزم قائم کیے تھے، لیکن امریکہ کی جانب سے ہر بار اس سے نحراف نے تقریبا تمام اتفاق رائے اور میکانزم کو ناکامی سے دوچار کیا ۔ اب جبکہ 2024 کے امریکی عام انتخابات میں صرف ایک سال باقی ہے، تو لگتا ہے کہ امریکی سیاست دان ایک بار پھر سیاسی مفادات کے حصول کے لیے چین امریکہ تعلقات کے بارے میں بات کر رہے ہیں ، لہذا چین اور امریکہ کے تعلقات کو اب بھی مستقبل میں بڑی غیر یقینی اور سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے ۔
ایک طرف چین باہمی احترام، پرامن بقائے باہمی اور باہمی تعاون کے مستقل اصولوں کو برقرار رکھتے ہوئے امریکہ کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے تمام کوششیں کر رہا ہے اور دوسری طرف اسے امریکی بیانات ،وعدوں اور عملی اقدامات پر بھی نظر رکھنا ہے تا کہ امریکی فریق کی ممکنہ پابندیوں اور دباؤ کی پالیسیوں کا بھرپور جواب دینے اور انسدادی کارروائی کے لیے خود کو تیار رکھے ۔جیسے کہ ایک چینی محاورہ بھی ہے کہ رد عمل دینا آداب کے مطابق ہے ۔ اسی لیے چین اور امریکہ کے تعلقات میں بہتری کے لیے یہ ضروری ہے کہ دونوں فریق نیک نیتی سے ایک دوسرے سے ہاتھ ملائیں کیوں کہ اگر امریکی فریق کا ' کیروٹ اینڈ اسٹک ' کا کھیل جاری رہا تو چین امریکہ تعلقات میں بہتری مشکل ہے ۔