امریکہ سائبر سکیورٹی کے لیے دنیا کا سب سے بڑا خطرہ ہے

2023/09/15 16:01:20
شیئر:

حال ہی میں چین کے نیشنل کمپیوٹر وائرس ایمرجنسی رسپانس سینٹر اور سائبر سیکیورٹی کمپنی 360 نے "سیکنڈ ڈیٹ" نامی اسپائی ویئر کا تکنیکی تجزیہ کیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سافٹ ویئر  امریکی قومی سلامتی ایجنسی (این ایس اے) کی جانب سے تیار کردہ سائبر جاسوسی ہتھیار ہے۔

 خیال رہے کہ پچھلے سال کے ماہ   جون میں  چین کی نارتھ ویسٹرن پولی ٹیکنیکل یونیورسٹی کے نیٹ ورک سسٹم پر حملہ کیا گیا اور اس کے نیٹ ورک میں بیرون ملک سے آنے والے ٹروجن ہارس کے متعدد نمونے پائے گئے۔ بعد کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ امریکی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی (این ایس اے) کے ماتحت مخصوص دراندازی آپریشنز آفس (ٹی اے او) نے نارتھ ویسٹرن پولی ٹیکنیکل یونیورسٹی پر مسلسل حملہ کرنے کے لیے 40 سے زائد مختلف این ایس اے کے خصوصی سائبر حملے کے ہتھیاروں کا استعمال کیا، جس سے اہم تکنیکی ڈیٹا  کی چوری  کی گئی ۔ حال ہی میں جاری ہونے والے تجزیے کی رپورٹ  میں اس سائبر جاسوسی آپریشن کے پیچھےاین ایس اے کے عملے کی اصل شناخت لاک کردی گئی ہے۔

1998میں قائم ہونے والا ٹی اے او امریکی حکومت کا ایک ٹیکٹیکل امپلمنٹیشن ادارہ ہے جو دوسرے ممالک کے خلاف بڑے پیمانے پر سائبر حملوں میں مہارت رکھتا ہے ۔ چین کے نیشنل کمپیوٹر وائرس ایمرجنسی رسپانس سینٹر کی ستمبر 2022 میں  جاری  ایک رپورٹ کے مطابق، حالیہ برسوں میں، ٹی اے او نے چین میں سائبر اہداف کے خلاف ہزاروں بدنیتی پر مبنی سائبر حملے کیے ہیں، جس میں 140 جی بی سے زیادہ ہائی ویلیو ڈیٹا چوری کیا گیا ہے۔

امریکہ اکثر دوسرے ممالک پر سائبر حملے کرتا رہتا ہے اور  امریکی نگرانی کا اسکینڈل  بار بار سامنے آتا رہا ہے ۔ دس سال قبل این ایس اے کنٹریکٹنگ کمپنی کے سابق ملازم ایڈورڈ سنوڈن نے ' پرزم گیٹ ' کھولا اور اس حقیقت کو بے نقاب کیا کہ امریکی حکومت طویل عرصے سے دنیا بھر میں انٹرنیٹ کے ذریعے  جاسوسی اور انٹیلی جنس چوری کی سرگرمیاں انجام دے رہی ہے۔ دس سال بعد انٹیلی جنس دفتر  کے افسر جیک ٹیکسیرا  کے "لیک گیٹ" نے ایک بار پھر امریکی نگرانی اور انٹیلی جنس چوری کے گندے رازوں کو بے نقاب کر دیا۔ بہت سے انٹرنیٹ صارفین  امریکہ کی انٹرنیٹ نگرانی کے حوالے سے  گہری بصیرت رکھے ہوئے ہیں جیسے ایک پیغام میں یوں کہا گیا کہ امریکہ دنیا کی سب سے بڑی نگرانی کی سلطنت ہے۔

حالیہ برسوں میں امریکہ نے سائبر جاسوسی اور نگرانی میں بہت زیادہ رقم اور انسانی وسائل کی سرمایہ کاری کی ہے۔ اپنے تکنیکی فوائد، طاقتور ہیکنگ کی صلاحیتوں کے ساتھ، دنیا کی بے ایمانی سے نگرانی کرتا ہے ۔لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ امریکہ نے  "صاف نیٹ ورک" کے جھنڈے تلے نیٹ ورک کی حفاظت کو برقرار رکھنے کا دعویٰ  کیا اور یہاں تک کہ دوسرے ممالک کو "نیٹ ورک سیکیورٹی خطرات" کے طور پر لیبل کیا ہے .تو  امریکہ کے دھوکے کے پیچھے کیا ہے؟

حالیہ برسوں میں، ہواوے جیسی چینی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیاں  تیزی سے  ترقی کر رہی ہیں ۔امریکہ کے خیال میں  اس کے اپنے مفادات کو چیلنج کیا جا رہا ہے، اور اسے خدشہ ہے کہ وہ سائبر اسپیس میں اپنی مکمل نگرانی کا فائدہ کھو سکتا ہے، لہذا اس نے ایک نام نہاد "کلین نیٹ ورک اتحاد" قائم کیا ہے اور چین کے ہائی ٹیک اداروں کو دبانے میں تعاون کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے دوسرے ممالک کو بھی اس  اتحاد  میں شامل ہونے کے لئے زور دیا ہے اور یہاں تک کہ مجبور کیا ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ امریکہ  کا مقصد  بہت واضح ہے کیونکہ اگر امریکی قومی سلامتی ایجنسی نیٹ نگرانی کے لیے روٹرز یا سوئچز میں ترمیم کرنا چاہتی ہے تو چینی کمپنیاں اس کے ساتھ تعاون نہیں کریں گی تو امریکہ کی جانب سے ٹارگٹ نیٹ ورک پر حملے کی مشکلات بہت بڑھ جائیں گی۔ ہواوے جیسی چینی کمپنیوں کی جتنی زیادہ تنصیبات   عالمی ٹیلی کمیونیکیشن نیٹ ورکس میں نصب کی جائیں گی، امریکہ کے لیے "'تمام معلومات جمع کرنا" اتنا ہی مشکل ہوگا۔  لہذا  امریکہ  نے دوسرے ممالک کے کاروباری اداروں کو دبانے اور روکنے کے لئے فوری طور پر ریاست کی طاقت کا غلط استعمال کیا ہے ۔ تاہم  امریکہ  کا یہ عمل  ضرور ناکام ہو گا ۔ 

حال ہی میں وینزویلا کے صدر نکولس مادورو نے چین کے دورے سے قبل   قومی   ٹی وی پروگرام میں ہواوے  کے نئے موبائل فون  کو سراہاتے ہوئے کہا کہ وہ خود   ہواوے موبائل فون استعمال کرتے ہیں ۔  انہوں نےمزید  کہا کہ  کارکردگی اور سیکیورٹی دونوں بہت اچھے ہیں،  امریکہ  وائر ٹیپنگ نہیں کرسکتا  ۔ مادورو کے ریمارکس دو  بات کی عکاسی کرتے ہیں، ایک یہ کہ چین  کوئی خفیہ نگرانی نہیں کرتا ہے  ، جو قابل اعتماد ہے، اور دوسرا یہ ہے کہ امریکہ وائر ٹیپنگ میں مصروف ہے ،جو  عالمی برادری  میں سب  جانتے ہیں  ۔

امریکہ سائبر اسپیس کو زمین، سمندر، ہوا اور خلا کے بعد پانچواں میدان جنگ سمجھتا ہے، سائبر جاسوسی اور سائبر حملوں کے ذریعے اپنی بالادستی برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہے، دوسرے ممالک کے نیٹ ورکس کو اپنی مرضی سے سبوتاژ کرتا ہے۔ امریکہ کا یہ اقدام  عالمی نیٹ ورک کی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ امریکہ کی سائبر بالادستی کی سوچ نے زیادہ سے زیادہ ممالک کو اس مسئلے کی سنگینی کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیا ہے اور ان ممالک نے سائبر اسپیس میں  ہم نصیب سماج کی تعمیر کے لئے مل کر کام کرنا شروع کر دیا ہے  جو آہستہ آہستہ ایک عالمی اتفاق رائے بن رہا ہے.