چین کی سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں خودانحصاری

2023/09/19 16:49:59
شیئر:

17 سے 23 ستمبر تک، نیشنل سائنس پاپولرائزیشن ویک 2023   چین کے  مختلف  مقامات پر منایا جارہا ہے۔ یہ چین کا 20واں نیشنل سائنس پاپولرائزیشن ویک ہے، ٹیکنالوجی کی مدد سے زراعت کو فروغ دینے   سے لے کر ملکی ترقی  کے  سائنس پر انحصار تک ، چین نے ہمیشہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کو بہت اہمیت دی ہے۔چین نے اپنے شہریوں کے سائنسی شعور کو بہتر بنایا ہے اور سائنس و ٹیکنالوجی میں قومی خود انحصاری کے لیے ایک مضبوط بنیاد رکھی ہے۔

سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی سب سے پہلے بنیادی تحقیقات پر مبنی ہے۔ اس سال فروری میں صدر  شی جن پھنگ نے سی پی سی کی مرکزی کمیٹی کے پولیٹیکل بیورو کے اجتماعی مطالعاتی اجلاس کے دوران نشاندہی کی کہ بین الاقوامی سائنس اور ٹیکنالوجی کی مسابقت کے پیش نظر ، اعلیٰ سطحی سائنسی خود انحصاری کے حصول کے لیے   بنیادی تحقیقات کو مضبوط بنانے اور کلیدی ٹیکنالوجی کے مسائل کا بنیادی حل ڈھونڈنے کی  ضرورت ہے۔

حالیہ برسوں میں، چین نے "بنیادی سائنسی تحقیقات کو جامع طور پر مضبوط بنانے پر متعدد آراء" اور بنیادی تحقیقات کے لیے دس سالہ منصوبہ جیسی پالیسیز جاری کی ہیں۔ بنیادی تحقیقات پر اخراجات 2012 میں 49.9 بلین یوآن سے بڑھ کر 2022 میں 195.1 بلین یوآن ہو گئے ہیں ۔ اعلیٰ سطحی اقدامات اور اخراجات میں اضافے کی بدولت، چین نے بنیادی تحقیقات میں کئی اہم پیش رفت کی ہیں، اور سائنس و ٹیکنالوجی میں خود انحصاری کی بنیاد کو مسلسل مضبوط کیا ہے۔

اس ضمن میں نئی توانائی سے چلنے والی گاڑیوں کی مثال لی جا سکتی ہے۔ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق رواں سال  پہلی ششماہی میں، چین کی گاڑیوں کی برآمدات میں سال بہ سال 76.9 فیصد اضافہ ہوا۔یہ برآمدات پہلی بار جاپان کو پیچھے چھوڑکر دنیا میں پہلے نمبر پر  ہیں ۔ ان  برآمدات میں  نئی توانائی سے چلنے والی نیو  انرجی گاڑیوں کا اہم حصہ ہے جو  160 سے زیادہ ممالک اور خطوں تک  ہوئی ہیں ۔

موٹرز، بیٹریاں اور الیکٹرانک کنٹرول جیسی نئی ٹیکنالوجی سے چلنے والی گاڑیوں کی کلیدی ٹیکنالوجیز کے لحاظ سے، چین دنیا کے صف اول  کے ممالک میں شامل ہو گیا ہے۔ اس  شاندار کارکردگی کی وجہ بنیادی ٹیکنالوجی میں ٹھوس تحقیقات اور  سرمایہ کاری ہے۔ اب تک چین کی  نیو انرجی گاڑیوں کی معروف کمپنی بی وائی ڈی نے بنیادی ٹیکنالوجی کی تحقیقات میں  100 بلین آر ایم بی  سے زیادہ  کی سرمایہ کاری کی ہے، جس میں  90,000 سے زیادہ ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ انجینئرز  اور 11 بڑے  ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ انسٹی ٹیوٹس  شامل ہیں ۔اسی وجہ سے بی وائی ڈی بیٹریاں اور ڈی ایم-آئی، سپر ہائبرڈ ٹیکنالوجی جیسی  تخلیقات اختیار کر سکتی ہے۔ نو اگست کو  بی وائی ڈی نے اپنی  نیو انرجی گاڑیوں  کی تعداد 5 ملین  تک پہنچائی  اور یہ کامیابی حاصل کرنے والی دنیا کی پہلی کار کمپنی بن گئی۔

سائنس اور ٹیکنالوجی  کی خود انحصاری میں ہنرمند افراد بنیادی قوت ہیں۔ 3 ستمبر کو،ہوا وےMate 60 Pro   موبائل فون کی آن لائن اور آف لائن فروخت شروع ہوئی  اور جے  ڈی،ٹی مال جیسے چین کے مقبول آن لائن چینلز پر،تمام موبائل فونز  سیکنڈز میں فروخت ہو گئے۔چینی صارفین بہت پرجوش ہیں کیونکہ یہ پہلا موبائل فون ہے جو مکمل طور پر چین کے تخلیق کردہ  ایس او سی چپ سے لیس ہے۔ امریکی پابندیوں  کے باوجود،ہوا وے کمپنی نے فائیو جی،کیرن چپس اور ہارمونی آپریٹنگ سسٹم میں اہم پیش رفت کی ہے ۔ہوا وے کی آفیشل ویب سائٹ پر جاری معلومات کے مطابق، اس وقت 300 سے زیادہ جدید سائنسی اور تکنیکی موضوعات ہیں، جو اعلیٰ صلاحیتوں کے منتظر ہیں ۔ ہوا وے کے 2019 میں شروع کیے گئے "جینیئس یوتھ" پراجیکٹ نے بہت زیادہ توجہ حاصل کی ہے۔ رپورٹس کے مطابق اس پراجیکٹ میں شامل ہونے والے "جینیئس نوجوانوں" کی سالانہ تنخواہ 1 ملین سے 2 ملین یوآن تک پہنچ سکتی ہے۔

 تعاون کے دور میں بھی  خود انحصاری کو  نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں ان ممالک کو  یہ  پیغام دینا چاہیے جو " ڈی کپلنگ" کی وکالت کرتے ہیں اور تکنیکی ناکہ بندیوں میں مصروف ہیں کہ ان کی سازشیں بالکل بیکار ہو جائیں گی۔ ڈیوڈ پال گولڈمین نے  جو  ایک امریکی ماہر اقتصادیات اور ایشیا ٹائمز کے ڈپٹی ایڈیٹر ہیں   ٹویٹ کیا کہ "10 یا 20  سال قبل ، سائنسی تحقیقی تعاون کو منقطع کرنے سے چین کو امریکہ سے زیادہ نقصان پہنچے گا۔ لیکن اب صورتحال مختلف ہے۔ چینی جامعات   سائنس اور انجینئرنگ کے شعبوں میں سرفہرست ہیں۔" اس وقت  اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والی چین کی آبادی 240 ملین سے تجاوز کر چکی ہے، اور  آئندہ آںے  والی نئی لیبر فورس کی تعلیم حاصل کرنے  کی اوسط  مدت 14 سال تک پہنچ گئی ہے،جس سے انسانی  وسائل کی بڑی برتری کی  تشکیل ہوئی ہے ۔  با صلاحیت افراد کی تعلیم و تربیت ، بنیادی تحقیقات میں مسلسل سرمایہ کاری اور یہاں تک کہ لوگوں کے سائنسی شعور میں بہتری، چین کی سائنسی اور تکنیکی خود انحصاری کو مزید مضبوط بنائے گی اور چین کی اعلیٰ معیار کی ترقی کے لیے مزید ٹھوس مدد فراہم کرے گی۔