میک کارتھی کی برطرفی سے "امریکی طرزِ جمہوریت" کی اصلیت بے نقاب، سی ایم جی کا تبصرہ

2023/10/05 15:53:37
شیئر:

مقامی وقت کے مطابق 3 اکتوبر کو  ریپبلکنز اکثریت کے حامل امریکی ایوان نمائندگان میں 210  کے مقابلے میں 216 ووٹ کے ذریعے  کیون میک کارتھی کو اسپیکر کے عہدے سے ہٹا دیا  گیا۔امریکی میڈیا  کی ہیڈ لائنز بتا رہی ہیں کہ  "امریکہ کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی"، "ایوان افراتفری کا شکار ہو گیا"، "ریپبلکن پارٹی قابو سے باہر ہو گئی"... امریکہ میں زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو تشویش ہے کہ امریکی سیاست میں "نمبر تین شخصیت" کے ڈرامائی ڈراپ کے ساتھ، امریکہ میں دونوں جماعتوں اور دھڑوں کے درمیان کشمکش شدت اختیار کر جائے گی، جس سے امریکی سیاسی میدان میں مزید افراتفری پھیل جائے گی اور امریکی معاشرہ مزید توڑ پھوڑ کا شکار ہو جائے گا۔

 امریکی وفاقی حکومت کا مالی سال ہر سال یکم اکتوبر سے شروع ہوتا ہے۔ ستمبر کے بعد سے امریکہ میں نئے مالی سال کے بجٹ کے حوالے سے دو نوں جماعتوں کی لڑائی شدت اختیار کر گئی ہے۔ قرضوں کی قانونی حد سے تجاوز کرنے کی وجہ سے حکومتی "شٹ ڈاؤن" سے بچنے کے لئے، ڈیموکریٹکس کے زیر کنٹرول سینیٹ اور ریپبلکنز کے زیر کنٹرول ایوان نمائندگان نے ایک عارضی تخصیصی بل پیش کیا، لیکن دونوں میں سے کوئی بھی منظور نہیں ہوا۔ ریپبلکن قدامت پسندوں نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ کسی بھی عارضی سمجھوتے کو قبول نہیں کریں گے۔ 30 ستمبر کو  ایوان نمائندگان کے اسپیکر کی حیثیت سے میک کارتھی نے آخری لمحات میں ڈیموکریٹس کے ساتھ مل کر یہ  عارضی تخصیصی بل منظور کیا ، اور بل میں ریپبلکن قدامت پسندوں کے وفاقی اخراجات میں زبردست کٹوتی اور سرحدی کنٹرول کو مضبوط بنانے کے مواد کو شامل نہیں کیا گیا۔ اس سے ریپبلکن پارٹی میں قدامت پسندوں کے ساتھ ان کے تنازعے میں براہ راست اضافہ ہوا۔

 امریکی سیاست میں مختلف جماعتوں کی صف آرائی ہمیشہ سے مرکزی موضوع رہی ہےاور حالیہ برسوں میں یہ لڑائی زیادہ شدت اختیار کر گئی ہے، یہاں تک کہ بہت سے مبصرین اسے "خانہ جنگی" کے طور پر خیال کرتے ہیں.  امریکی اسکالر فرانسس فوکویاما نے کہا ہے کہ امریکی نظام کو واضح مسائل درپیش ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنی اصلاح کرنے سے قاصر ہے۔ جب امریکی سیاست چند لوگوں کے ذاتی مفادات کو پورا کرے اور امریکی طرزِ جمہوریت "اقتدار کا کھیل" بن جائے، تو امریکی سیاست دانوں کی طرف سے احتیاط سے تیار کردہ "جمہوری بیانیے" میں کتنی ساکھ  باقی رہی گی ؟ جیسا کہ ایک فرانسیسی پولیٹیکل سائنٹسٹ اور انسٹی ٹیوٹ مونٹیگن کے خصوصی مشیر ڈومینک موئیسی  کہتے  ہیں،کہ سیاسی پولرائزیشن  امریکہ کو  مفلوج کر سکتی ہے، اور امریکی جمہوریت تقریباً ایک  "منفی نصابی کتاب" بن چکی ہے۔