اس وقت روس اور یوکرین کے درمیان جنگ جاری ہے اور فلسطین اور اسرائیل کے درمیان تنازعہ دوبارہ شروع ہو چکا ہے، انسانیت کہاں جائے گی؟ اس کے جواب میں، چین نے 10 تاریخ کو ایک وائٹ پیپر جاری کیا جس کا عنوان "بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ا یٹو کی مشترکہ تعمیر: بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر میں اہم تجربہ " ہے، ایک بار پھر اس سوال کا چین کی جانب سے جواب دیا گیا ہے۔
یہ دوسرا موقع ہے جب چین نے بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرےکے حوالے سے وائٹ پیپر جاری کیا ہے۔ صرف آدھا ماہ قبل، چین کی ریاستی کونسل کے انفارمیشن آفس نے 26 ستمبر کو "بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کی مشترکہ تعمیر کرنا: چین کے انیشی ا یٹوز اور اقدامات" وائٹ پیپر جاری کیا۔ وائٹ پیپر میں بتایا گیا ہے کہ بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کا تصور نہ صرف انسانوں کے مستقبل بلکہ ہرایک شخص کی تقدیر سے بھی وابستہ ہے۔
بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کا تصور ایک بہتر مستقبل کے لیے تمام ممالک کے لوگوں کے مشترکہ وژن کی عکاسی کرتا ہے۔ 1980 کی دہائی سے، اقوام متحدہ اور کچھ ممالک نے یکے بعد دیگرے یوریشین کانٹی نینٹل برج کا تصور اور شاہراہ ریشم کی بحالی کا منصوبہ پیش کیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تمام ممالک کے عوام روابط، مکالمے، تبادلے اور تعاون کی مشترکہ خواہش رکھتے ہیں۔ یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ تصور ایک بہتر دنیا کی تعمیر کے لیے تمام لوگوں کی مشترکہ خواہش کو ظاہر کرتا ہے۔
دوسری طرف ،یہ تصور تاریخی تہذیب و تمدن کی وراثت اور ترقی ہے۔ اس تصور پر عمل درآمد کے ایک اہم تجربے "بیلٹ اینڈ روڈ" کامنبع قدیم شاہراہ ریشم ہے ۔ آج سے 2,000 سال پہلے، قدیم شاہراہ ریشم اقتصادی اور تجارتی تبادلے اور تہذیبوں کے درمیان باہمی سیکھنے کے لیے ایک راستہ رہ چکی ہے۔ اب، "بیلٹ اینڈ روڈ " نہ صرف ٹھوس اقتصادی فوائد لارہا ہے، بلکہ عالمی ترقی کے مسائل کو حل کرنے اور عالمی گورننس کے نظام کو بہتر بنانے میں بھی مثبت کردار ادا کررہا ہے۔
اگر ماضی کا جائزہ لیں،تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ چینی تہذیب میں نمایاں جامعیت اور امن پسند خصوصیات ہیں۔یہ بنیادی طور پر چینی ثقافت کی عالمی تہذیبوں کے لیے کھلے پن کا تعین کرتا ہے اور اس بات کا تعین کرتا ہے کہ چین ہمیشہ عالمی امن کا معمار ، عالمی ترقی کو فروغ دینے والا اور بین الاقوامی نظام کا محافظ رہے گا، ثقافتی بالادستی کے بجائے تہذیبوں کے درمیان تبادلے اور باہمی سیکھنے کو جاری رکھے گا، اپنی اقدار اور سیاسی نظام دوسروں پر مسلط نہیں کرے گا، تصادم کے بجائے تعاون کا مضبوط حامی رہے گا۔ لہٰذا، چین کی طرف سے تجویز کردہ بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کا تصور انا پرستی اور تحفظ پسندی سے بالاتر ہو سکتا ہے۔ یہ تصور تسلط پسندانہ سوچ کی نفی کرتا ہے اور بنی نوع انسان کی مشترکہ خواہش کا اظہار کرتا ہے۔
پائیدار امن، عالمگیر سلامتی، مشترکہ خوشحالی، کھلے پن اور جامعیت کی حامل صاف اور خوبصورت دنیا ہر ایک کی خواہش ہے اور ہر ایک کے مفاد میں ہے۔ مارچ 2013 میں چینی صدر شی جن پھنگ نے بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کا تصور پیش کیا۔ گزشتہ 10 سالوں کے دوران،اس تصور پر عملی اقدامات مسلسل جاری ہیں اور ہمہ جہت نتائج حاصل کیے جا رہے ہیں۔ "بیلٹ اینڈ روڈ"انیشی ایٹیو ،گلوبل ڈویلپمنٹ انیشی ا یٹو، گلوبل سیکورٹی انیشی ایٹو، گلوبل سولائزیشن انیشی ایٹو نے جڑ پکڑ لی ہے، جس سے دنیا میں خوشحالی اور استحکام کا ٹھوس فائدہ پہنچا اور لوگوں کی حقیقی فلاح و بہبود ہوئی ہے۔ " بیلٹ اینڈ روڈ" کے فلیگ شپ منصوبے کے طور پر، چین پاکستان اقتصادی راہداری کی تعمیر نے گزشتہ دس سالوں میں نتیجہ خیز پیش رفت کی ہیں: پاکستان کی پہلی سب وے اور پہلی سمارٹ ہائی وے کے کچھ حصے مکمل طور پر کھول دیے گئے ہیں، چین پاکستان اقتصادی راہداری میں کمرشل انرجی پروجیکٹس کی کل نصب شدہ صلاحیت پاکستان کی مجموعی صلاحیت کے تقریباً بیس فیصد تک پہنچ چکی ہے۔سی پیک سے مجموعی طور پر 155,000 مقامی ملازمتیں پیدا ہوئی ہیں۔ان کامیابیوں نے دنیا کو "بیلٹ اینڈ روڈ" کی مضبوط قوت سے متعارف کروایا ہے۔
ہمیں یقین ہے کہ مستقبل میں، بنی نوع انسان کا ہم نصیب معاشرہ تشکیل دینے کا تصور تمام ممالک کی امن، ترقی اور خوشحالی کے حصول کی کوششوں کو مضبوط بنائے گا ، اور کرہ ارض پر رہنے والے ہر فرد کو بہتر زندگی کے حصول کے لیے سازگار اور محفوظ ماحول فراہم کرتا رہے گا ۔