اقوام متحدہ میں یہ منظر امریکہ کے لیے وارنگ کی گھنٹی ہے، سی ایم جی کا تبصرہ

2023/10/21 16:06:04
شیئر:

 18 تاریخ کو  جب امریکی نمائندہ مشیل ٹیلر نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں تقریر کی تو بہت سے شرکا نے امریکہ کی جانب سے اسرائیل کی "یکطرفہ" حمایت اور  مسئلہ فلسطین پر فلسطینی عوام کے انسانی حقوق کو نظر انداز کرنے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے پوڈیم کی طرف منہ موڑ لیا۔ 

اس تنازع کی موجودہ لہر میں اب تک  5600 سے زائد  انسانی ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ غزہ کی پٹی کے چاروں اسپتالوں میں  طبی خدمات بند ہیں اور  بحران تیزی سے بگڑ گیا ہے۔ ایسی المناک صورتحال کے پیش نظر فلسطین اسرائیل مسئلے کے ایک اہم فریق کی حیثیت سے امریکہ نہ صرف تنازعے کے فریقوں کو  تسلی دینے  میں ناکام رہا بلکہ حالیہ دنوں میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی انسانی امداد سے متعلق قرارداد کے مسودے کو دو بار ویٹو بھی کیا، جس سے فلسطین اسرائیل تنازع میں اضافہ ہوا اور مزید بے گناہ شہری ہلاک و زخمی ہوئے ہیں ۔اس صورتحال پر  برازیل، روس، چین اور دیگر ممالک نے بے حد  صدمے اور مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

 تاریخ پر نظر ڈالیں تو امریکہ کبھی بھی فلسطین اور اسرائیل کے مسئلے پر ایک معروضی اور غیر جانبدار ثالث نہیں  بلکہ ایک  جانب دار  فریق  رہاہے۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکہ نے فلسطین اسرائیل مسئلے پر بہت سے امن مذاکرات کا اہتمام کیا لیکن اسرائیل کے ساتھ اس کی "یکطرفہ پسندی "  کی وجہ سےفلسطینیوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی گئی  جس سے امریکہ فلسطینی اسرائیل اختلافات کو مؤثر طریقے سے حل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔حالیہ  تنازع کے  آغاز  کے بعد ایک طرف امریکی صدر بائیڈن، وزیر خارجہ بلنکن، وزیر دفاع آسٹن اور دیگر اعلی اہلکاروں  نے مشرق وسطیٰ کا مسلسل دورہ کیا اور جنگ بندی کے حصول کے لیے  فلسطین کے ساتھ ثالثی کا دعویٰ کیا اور دوسری جانب امریکی کیریئر  طیارے جنگی گروپ اسرائیل کے لئے روانہ ہوئے۔ امریکا نے غزہ میں انسانی امداد سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی دو قراردادوں کے مسودے کو بھی ویٹو کر دیا۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر اسٹیفن والٹر نے حال ہی میں  ایک جریدے فارن پالیسی میں لکھا ہے کہ "امریکہ فلسطین اسرائیل جنگ کے  نئے دور کی بنیادی وجہ ہے۔

 مسلسل تنازعات اور انسانی آفات کے پیش نظر  سلامتی کونسل کو  غیر فعال نہیں رہنا چاہیے۔ امریکہ کو اپنی ذمہ داریاں نبھانا چاہئیں اور جنگ  بندی اور جنگ کے خاتمے  کے لیے بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔ بصورت دیگر  وہ وقت دور نہیں جب پوری دنیا اس سے منہ موڑ لے ۔